بلاول بھٹو کی پریس کلب آمد اور ستار سے ملاقات کی کہانی
آخر وہ دن آہی گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو کراچی پریس کلب پہنچے۔ ان کی آمد سے 2 روز قبل ہی پروگرام کی تیاریاں شروع کردی گئیں تھی۔
ہم جسبِ معمول پریس کلب میں موجود تھے تو اراکین ہم سے آتے جاتے دریافت کررہے تھے کہ کیا بلاول آج ستار سے ملیں گے؟ وجہ صرف یہ تھی کہ ہم 6 نومبر کو ڈان نیوز میں شائع ہونے والے اپنے ایک بلاگ میں ستار کے معصومانہ سوال پر لکھ چکے تھے کہ ’کیا بلاول پریس کلب آئیں گے‘۔
بلاگ کی اشاعت کو یقینی بنانے کے لیے ہم نے ڈان میں موجود ذمہ داران سے بھی بات کی۔ ان کا جواب انتہائی محتاط تھا۔ وہ بولے آپ تو جانتے ہی ہیں کہ معیار کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ ہم نے جواباً کہا کہ آپ مایوس نہیں ہوں گے۔ خیر آخر کار طویل اور وقت طلب کوشش کے بعد 6 نومبر 2018ء کو ڈان کی ویب سائٹ پر ہمارا یہ بلاگ شائع ہوگیا۔
بلاگ کیا چھپا گویا ایک طوفان سا آگیا۔ ہمیں پاکستان بھر سے ٹیلی فون کالز، واٹس ایپ میسجز اور فیس بک میسجز موصول ہونا شروع ہوگئے۔ ہم نے یہ سنا تھا کہ لکھاری کو ابتدائی اور موضوع کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے، لیکن یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہوگیا۔ اب ستار بھائی ایک سیلیبرٹی ہوگئے تھے۔
اس دوران کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے ان کے خلاف ایک مہم کا آغاز کردیا اور ان پر ایسے ایسے الزامات عائد کیے گئے کہ الامان الحفیظ۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ لوگ اس چکر میں ہیں کہ بلاول کسی طور بھی پریس کلب نہ آئیں اور اگر آئیں بھی تو ستار سے ان کی ملاقات نہ ہو۔ ہم بھی مایوس ہوگئے تھے۔ لیکن شاید ہی کوئی دن ایسا تھا کہ ستار بھائی سے ناصرف پریس کلب کے اراکین بلکہ دیگر شہروں کے صحافی بھی بڑے والہانہ انداز میں نہ ملتے۔
ایک بار تو حد ہوگئی۔ بلوچستان کے صحافیوں، بیوروکریسی اور سیاسی عمائدین پر مشتمل ایک وفد گوادر پریس کلب کے صدر بہرام بلوچ کی رہنمائی میں کراچی پریس کلب آیا۔ شام کا وقت تھا۔ ہم پریس کلب کی بالائی منزل پر بیٹھ کر کوئی مضمون لکھ رہے تھے۔ ان بلوچ دوستوں سے ہمارا تعارف کروایا گیا۔ انہوں نے روایتی انداز میں ملاقات کی جس میں سرد مہری غالب تھی۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا جناب کیا آپ میری ایک مدد کرسکتے ہیں؟ وہاں شور بہت ہے، لوگ گا رہے ہیں، لیکن میری آواز کوئی سنتا ہی نہیں۔ میں نے کہا حکم کریں۔ انہوں نے کہا کہ یار وہ ایک بلوچ صاحب ہیں جو ڈان پر لکھتے ہیں۔ میں بڑا خوش ہوا اور میں نے کہا جی جی کیا آپ کو ان سے ملنا ہے؟ وہ بولے ارے انہیں چھوڑیں یار، انہوں نے ستار پر ایک بلاگ لکھا ہے۔ کیا وہ ہمیں ستار سے ملوا سکتے ہیں؟
بس کیا کہیں کہ ہم پر کیا گزری۔ خیر ہم بھاری قدموں سے اٹھے اور بالائی منزل کی کھڑکی کھول کر ستار بھائی کو آواز دی اور اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ ستار بھائی کی آمد کے بعد ایسا لگا کہ کوئی بھونچال سا آگیا ہو۔ لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنوارہے تھے، سیلفیاں بن رہی تھیں۔ اسی دوران ایک صاحب بولے ستار بھائی پر جس اختر بلوچ نے لکھا تھا وہ وہاں بیٹھے ہیں لہٰذا ایک نعرہ تحسین ہمارے نام پر بھی بلند ہوا لیکن مہمانِ خاص بہرحال ستار بھائی ہی رہے۔
یہ تو ایک واقعہ تھا جو ہم نے ایمان داری سے لکھ دیا۔ یہ تو اب آئے دن کا معمول بن گیا تھا۔ اب تو ستار بھائی سے تھوڑی تھوڑی رقابت بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ خیر ہم کیا کرتے۔
پھر اچانک ہمارے ایک دوست عثمان جو اب بلاول ہاؤس کے مانیٹرنگ اور رسپانس سیل کے نگران ہیں، وہ پریس کلب آئے۔ ہم سے ملے۔ چونکہ ملاقات بڑے عرصے کے بعد ہورہی تھی اس لیے ہم بہت خوش ہوئے لیکن ان کے اگلے سوال نے ہمیں مایوس کردیا۔ وہ بولے کیا ستار سے ملاقات ہوسکتی ہے؟ ہم نے روایتی طریقے سے ستار بھائی کو پریس کلب کی بالائی منزل کی کھڑکی سے آواز دی۔ وہ تشریف لے آئے۔ اس کے بعد عثمان نے کہا کہ کیا کچھ دیر ستار بھائی سے تنہائی میں بات ہوسکتی ہے؟ ہم اس کا مطلب سمجھ گئے، یعنی کہ ہمیں باہر جانا تھا۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ عثمان نے بلاول بھٹو کی ہدایت پر ستار سے ملاقات کی ہے۔ ایک دن بعد ہی پریس کلب میں یہ اعلان کیا گیا کہ بلاول بھٹو پریس کلب تشریف لائیں گے ۔ وہ صحافیوں سے ملاقات کریں گے، ان کے سوالات کے جوابات بھی دیں گے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت سندھ کی جانب سے پریس کلب کے لیے جاری کی جانے والی امداد کا چیک بھی پیش کریں گے، لیکن اس ساری گفتگو میں ستار کا ذکر کہیں بھی نہیں تھا، اور ہمیں یہ تقریباً یقین ہوچکا تھا کہ ملاقات کا اب کوئی امکان نہیں۔
بالآخر 2 فروری کو بلاول پریس کلب پہنچے۔ انہوں نے ایک دلچسپ تقریر کی۔ سوالات کے جواب بھی دیے۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ ایک صاحب نے ہم سے طنزیہ انداز میں دریافت کیا کہ تقریب ختم ہونے والی ہے، بلاول ستار سے کب ملیں گے؟