اردو اپنے آپ بدل جائے گی، اِسے آپ نہ ’بدلیے‘
کسی زبان کا جب کوئی لفظ مرتا ہے، تو اس کے ساتھ اس سے جڑی ہوئی پوری تہذیب فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔
ہم جب بھی سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) پر املا یا زبان کی کوئی غلطی دیکھتے ہیں، تو فوراً ’ذاتی پیغام‘ پر مطلع کردیتے ہیں۔ بہت سے کرم فرما اس پر منہ بھی بناتے ہیں۔ پھر ہم تو ذرا سا عدم توجہی کے اشارے کے منتظر، وہاں سے یہ جا وہ جا۔ کیونکہ زبان کی درستی مقدم لیکن اگر کسی کو بگڑے ہی رہنا ہے تو خوشی سے رہے، ہمیں کیا!
کہتے ہیں کہ ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ بہت غیر رسمی سی جگہ ہے، جہاں سنجیدگی دکھانا ہی نہیں چاہیے۔ دوسری طرف وہاں بات ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس پر رائے دی جائے اور اتفاق و اختلاف کے نتیجے میں ہماری معلومات میں اضافہ اور پختہ رائے بنے۔ زبان اسی اظہار کا بنیادی وسیلہ ہے، پھر جب لوگ اپنے خیالات پر سنجیدگی سے گفتگو کر رہے ہیں، تو ایسے میں ہم ’صحت زبان‘ کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔