اردو اپنے آپ بدل جائے گی، اِسے آپ نہ ’بدلیے‘

ہم جب بھی سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) پر املا یا زبان کی کوئی غلطی دیکھتے ہیں، تو فوراً ’ذاتی پیغام‘ پر مطلع کردیتے ہیں۔ بہت سے کرم فرما اس پر منہ بھی بناتے ہیں۔ پھر ہم تو ذرا سا عدم توجہی کے اشارے کے منتظر، وہاں سے یہ جا وہ جا۔ کیونکہ زبان کی درستی مقدم لیکن اگر کسی کو بگڑے ہی رہنا ہے تو خوشی سے رہے، ہمیں کیا!
کہتے ہیں کہ ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ بہت غیر رسمی سی جگہ ہے، جہاں سنجیدگی دکھانا ہی نہیں چاہیے۔ دوسری طرف وہاں بات ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ اس پر رائے دی جائے اور اتفاق و اختلاف کے نتیجے میں ہماری معلومات میں اضافہ اور پختہ رائے بنے۔ زبان اسی اظہار کا بنیادی وسیلہ ہے، پھر جب لوگ اپنے خیالات پر سنجیدگی سے گفتگو کر رہے ہیں، تو ایسے میں ہم ’صحت زبان‘ کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔
زبان کی تبدیلی کے حوالے سے ایک سوچ یہ ہے کہ یہ تو بدلتی رہتی ہے، اس لیے اِس کی ’غلطیوں‘ کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے، بس بات سمجھ میں آنا چاہیے، کافی ہے، آگے بڑھیے۔
لیکن ہماری رائے ہے کہ نہیں صاحب! یہ درست ہے کہ زبان بدلتی ہے اور لفظ تبدیل بھی ہوتے ہیں اور اپنے معنی بھی اتارتے اور پہنتے رہتے ہیں لیکن اس کو عذر کرکے اصلاح اور درستی کا دروازہ بند کرنا مناسب نہیں۔ کسی بھی زبان کا یہ حق ہے کہ اسے اچھی طرح جان کر سیکھ کر اس کے ہر ممکن آداب کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ رہی بات تبدیلی کی، تو وہ اپنے آپ غیر محسوس طریقے سے جاری ہے۔ زبان کی غلطیوں پر بضد رہنا زبان کی زوال پذیری کی راہ تو ہوسکتی ہے، تبدیلی کی نہیں!
زبان دراصل سماج کی ترقی و تنزلی سے جڑی ہے، جب سماج زوال پذیر ہو تو اس کے اثرات سے زبان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ ان کی وسعت اور سکت کمزور پڑنے لگتی ہے، جس سے براہِ راست اس میں اظہار اور فکر و خیال کی رنگا رنگی ماند پڑجاتی ہے۔
ہمارے بہت سے صحافی بھی کہتے ہیں کہ ’میاں یہ اخبار یا ٹی وی ہے، کوئی ادبی کتاب تو نہیں، یہاں تو ایسی زبان ہی چلے گی‘۔ بھئی اب ہمارا واسطہ کتابوں یا ادب سے رہ ہی کتنا گیا ہے، ہماری عام زبان کے نصیب میں دراصل اب انہی ذرائع اِبلاغ کے زیرِ اثر چلنا لکھا ہے۔ ممتاز صحافی رضا علی عابدی کی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ’جو ٹی وی پر چلے گی وہی زبان باقی رہے گی۔‘ اس لیے ہم زبان کے بگاڑ سے آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی زبان کا جب کوئی لفظ مرتا ہے، تو اس کے ساتھ اس سے جڑی ہوئی پوری تہذیب فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اس لیے زبان کا برتاؤ کہیں بھی ہو، اس کی درستی کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
یہ لفظ ہی ہیں جو اپنے معنی کے ساتھ ہمارے ذہن میں اپنا ایک عکس اور شبیہ بھی بناتے ہیں۔ ہم ان لفظوں سے اپنے کسی خیال اور احساس کو دوسرے کے دل میں اتارتے ہیں اور کسی منظر کا ابلاغ کرتے ہیں۔
کہیں ایک بات کے لیے کئی، جب کہ کہیں ایک ہی لفظ میسر ہوتا ہے۔ زبان کے جیسے تیسے چلاؤ پر اڑے رہنے والے ذرا ایک لمحے کے لیے دیکھیں تو وہ جسے زبان کا بدلاؤ کہہ رہے ہیں، اس سے براہِ راست اردو کی علمیت پر کتنا سنگین اثر پڑ رہا ہے اور یہ کتنی سطحی ہونے لگی ہے۔
اب ’جانِ من‘ جیسے لفظ کو ’جانے من‘ لکھنے سے بڑی جذباتی توہین بھلا اور بھی کوئی ہوگی؟ زیر کے ذریعے بڑی ’ے‘ کی آواز پیدا کرنے والے مرکب الفاظ کی یہ غلطیاں تو ہمارے نامی گرامی کالم نگار بھی دھڑلے سے کر رہے ہیں، سرے دست (سرِ دست) شانے کراچی (شانِ کراچی) بارے گراں (بارِ گراں)، فخرے سرگودھا (فخرِ سرگودھا) وغیرہ اس کی عام مثالیں ہیں۔
لوحِ قلم کو ’لوہے قلم‘ لکھنے کا لطیفہ تو بہت عام ہوا۔ ہم ’سوہانِ روح‘ لکھتے ہوئے ’سُہانے‘ لکھ جاتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ بھلا اردو کی توہین اور کیا ہوگی کہ جب دیوانِ غالب کو بھی ’دیوانے غالب‘ اور آبِ حیات کو ’آبے حیات‘ لکھ دیں!
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔