پاکستان

ڈان تحقیقات: اے ایس ایف عریبین وسٹا کی لرزتی بنیادیں

کراچی کی ریئل اسٹیٹ میں داخلے کیلئے کوشاں سیکیورٹی فورس کو ورلڈ گروپ نے انتہائی مشکوک منصوبے کیلئے آئیڈیل پارٹنربنادیا۔

12 جولائی 2017 کو ایک انتہائی سخت الفاظ میں تحریر کردہ خط ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی اے) آغا مسعود عباس (جو ریٹائر ہوچکے ہیں) کی میز تک پہنچا۔ یہ اُس وقت کے ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس(اے ایس ایف) کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر عمران الحق راؤ کی طرف سے تھا۔

بریگیڈیئر عمران الحق کو غصے پر اکسانے کی وجہ اے ایس ایف کو جاری کردہ شوکاز نوٹس تھا جو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے چند دن قبل بھیجا گیا تھا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ اے ایس ایف اپنے کراچی میں منصوبے عریبین وسٹا پر غیر قانونی فروخت، بکنگ اور اشتہاری سرگرمیاں فوری طور پر بند کرے۔ نوٹس میں اے ایس ایف کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تین دن کے اندر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو جواب دے کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے کیونکہ انہوں نے ایس بی سی اے سے اجازت لیے بغیر درج بالا سرگرمیاں انجام دیں۔

اکتوبر 2017 میں لی گئی اے ایس ایف عریبین وسٹا کی سیٹلائٹ تصویر۔ بشکریہ نزیحہ سید علی

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے شوکاز نوٹس کے جواب میں لکھے گئے خط میں بریگیڈیئر عمران نے سخت لب و لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ اے ایس ایف پاکستان آرمی ایکٹ کے ماتحت کام کرتی ہے اور یہ کہ اس کے ہاؤسنگ منصوبے وفاقی حکومت کی اجازت سے اے ایس فاؤنڈیشن کے منصوبے پر شروع کیے گئے ہیں اور یہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے زیر انتظام نہیں آتے۔

بریگیڈیئر عمران الحق نے اپنے خط کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ہم سختی سے تاکید کرتے ہیں کہ آپ فوری طور پر ایسی کسی بھی اشاعت سے باز رہیں جو اے ایس ایف ہاؤسنگ پروجیکٹ کی اعلیٰ ساکھ کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔

کراچی میں سیکڑوں منصوبوں کی موجودگی بڑا سوالیہ نشان، لالچی بااثر سیاسی شخصیات کی سازش کا نتیجہ، اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات اور ان کے فرنٹ مین (بلڈرز)، رشوت خور لینڈ بیوروکریسی، مختصراً یہ کہ یہ لینڈ مافیا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہر ممکنہ طریقے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی کراچی کی قیمتی ریئل اسٹیٹ میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔

اکتوبر 2017 میں لی گئی صائمہ عریبین ولاز کی سیٹیلائٹ تصویر۔ بشکریہ نزیحہ سید علی

نارتھ کراچی میں سرجانی ٹاؤن لنک روڈ پر مجموعی طور پر 270 ایکڑ اراضی پر پھیلے اے ایس ایف عریبین وسٹا اور صائمہ عریبین ولاز ایک کتابی کیس ہے جو اس ریکٹ کے کردار کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔

یہ منصوبے بظاہر ایک دوسرے سے الگ نظر آتے ہیں لیکن ان کی جڑ ایک ہی ہے۔ تقریباً 12سال قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کے قریبی ساتھی اور ورلڈ گروپ پاکستان کے مالک محمود ٹرنک والا نے اس علاقے میں آہستہ آہستہ زمین کا قبضہ لینے کا سلسلہ شروع کیا اور صائمہ عریبین ولاز منصوبے کا آغاز زمین کے اسی ٹکڑے سے کیا گیا۔ ورلڈ گروپ جو اس وقت صائمہ بلڈرز کے مالک سلیم ذکی جو اب انتقال کرچکے ہیں کا شراکت دار تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ زمین پر قبضے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ علاقے کے ریئل اسٹیٹ کے انتہائی قریبی ذرائع کے مطابق کچھ زمین شیرو نامی ایک اور قبضہ مافیا سے حاصل کی گئی جس نے جام چاکرو کے قریب واقع کچرا چننے کے ڈپو سے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ سیٹیلائٹ امیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ صائمہ عریبیئن ولاز کے زیر قبضہ زمین کا رقبہ 230 ایکڑ ہے۔

دو سال قبل ورلڈ گروپ نے بورڈ میں اے ایس ایف کو پارٹنر بنا لیا۔ یہ صورتحال ہر حال میں فتح حاصل کرنے جیسے تھی: سیکیورٹی فورس کراچی کے ریئل اسٹیٹ میں داخلے کے لیے کوشاں تھی، اس ہتھیار نے اسے اس انتہائی مشکوک منصوبے کے لیے آئیڈیل پارٹنر بنا دیا۔ اس طرح 40 ایکڑ پر محیط اے ایس ایف عریبیئن وسٹا کا قیام عمل میں آیا۔ اے ایس ایف ہاؤسنگ اسکیم کی ویب سائٹ اس کی تشہیر کراچی میں تین۔ چار اور پانچ کمروں کے بڑے اپارٹمنٹ کمپلیکس کے طور پر کرتی ہے۔

آپ صائمہ عریبین ولاز کے بیچوں بیچ سے اے ایس ایف عریبین وسٹا تک پہنچ سکتے ہیں یا جام چاکرو کے قریب سرجانی ٹاؤن لنک روڈ پر واقع اس کے اپنے داخلی دروازے سے جاسکتے ہیں۔ اس جگہ کے حالیہ دورے سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی داخلی راستہ، کلب ہاؤس اور ماڈل اپارٹمنٹ تکمیل کے قریب ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ساتھ تنازع تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

صائمہ عریبیئن ولاز میں تعمیرات (فوٹو: فہیم صدیقی)

بااثر افراد کا گٹھ جوڑ

اگر صائمہ عریبین ولاز اور اے ایس ایف عریبین وسٹا کے پس پردہ عناصر پر نظر دوڑائی جائے تو سلیم ذکی کا نام سامنے آتا ہے جو کراچی میں بااثر سیاستدانوں کے ساتھ باہمی مفادات کے تعلقات کے حوالے سے مشہور تھے، اور کہا جاتا ہے کہ شہر میں ریئل اسٹیٹ کے کئی مشکوک منصوبوں کے پیچھے بھی وہی تھے۔یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے وزیر بابر غوری کے ساتھ پارٹنر شپ کر کے پاکستان ریلوے کی زمین پر قبضہ کر کے نارتھ کراچی میں صائمہ برج ویو اپارٹمنٹ کمپلیکس تعمیر کیا، ناظم آباد میں اس طرح کے متعدد منصوبوں کے پیچھے یہی قوت تھی۔

اس کی ایک اور مثال لانڈھی میں صائمہ لگژری سٹی ہے، جو ملیر ندی کے پشتے کے بائیں طرف بنایا گیا ہے (واضح رہے کہ قانون کے تحت پشتے یا بند کی زمین پر تعمیرات نہیں کی جاسکتیں تا کہ پانی کی روانی میں رکاوٹ نہ آئے)، اس کے علاوہ گزشتہ برس جون میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے بتایا کہ سپر ہائی وے پر بننے والا صائمہ گروپ کا منصوبہ حکومتی زمین پر غیر قانونی طریقے سے تعمیر کیا گیا جس کے بعد 4 مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے خلاف دیے گئے فیصلے کے بعد کچھ ولاز سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے مسمار کردیے تھے، جسے ایس بی سی اے نے بنیادی این او سی تک کے بغیر تعمیر کی اجازت دے دی تھی۔

واضح رہے کہ ٹرنک والا کے پاکستان کی طاقتور اشرافیہ سے تعلقات نے ورلڈ گروپ کو بہت تیزی سے پھلنے پھولنے میں مدد دی، کمپنی کی کثیرالجہت کاروباری سلطنت میں آٹوموبائل (ورلڈ آٹوز) برآمدات، ریئل اسٹیٹ اور دیگر شامل ہیں۔

اور جن کے ساتھ انہوں نے قریبی تعلقات استوار کیے ان میں اے ایس ایف شامل ہے بلکہ اصل میں ٹرنک والا ان 3 سے 4 ہائی پروفائل کاروباری خاندانوں میں سے ایک ہے، (جن میں ایک ٹیسوری خاندان بھی ہے) جنہیں سیکیورٹی فورس کی طرف سے اس حد تک وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے کہ ان کے مہمانوں کے کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی اے ایس ایف اہلکاروں کا دستہ ان کے ہمراہ ہوجاتا ہے، اس بارے میں اراضی کے ادارے کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار جنہیں اس میزبانی کا تجربہ ہوا، کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں قانون کا کوئی احترام نہیں، آپ کو صرف ایک اچھا رقم دینے والا ہونا چاہیے‘۔

(ذرائع کے مطابق ٹرنک والا خاندان کے سربراہ اور ان کے بیٹے مدینہ منورہ میں پر تعیش زندگی گزارتے ہیں، جہاں مسجد قبا کے قریب ان کا ایک محل نما گھر (مینشن) اور درجنوں قیمتی گاڑیاں ہیں جن میں سے ہر ایک کے لیے علیحدہ شوفر ہے، جس سے گھر سے دور بھی گھر جیسی راحت و آرام میسر ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا اقامہ دینے والا کفیل کوئی اہم سعودی شہری نہیں بلکہ افضل نام کا ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار ہے۔

چالیس ایکڑ پر پھیلے اے ایس ایف منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے— فوٹو: فہیم صدیقی

اے ایس ایف کے 4 ریئل اسٹیٹ منصوبوں میں اے ایس ایف عریبین وسٹا، اے ایس ایف سٹی، اے ایس ایف ایئرپورٹ ریزیڈینشیا اور اے ایس ایف ٹاورز شامل ہے، ان منصوبوں کا اعلان اس وقت ہوا تھا جب میجر جنرل سہیل احمد خان اے ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل تھے جو اب ریٹائرڈ ہوچکے۔ اے ایس ایف کے سربراہ کی حیثیت سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اے ایس ایف ہاؤسنگ کا آغاز شہدا اور اے ایس ایف کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے کیا گیا، جو ایک گمراہ کن اور مشکوک دعویٰ تھا کیوں کہ جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والا حملہ شاید وہ واحد واقعہ تھا جس میں اے ایس ایف کے 12 اہلکاروں نے شہادت پائی تھی۔

خیال رہے کہ 8 ہزار 9 سو 45 اہلکاروں پر مشتمل اے ایس ایف ایک طاقتور ادارہ ہے جو پاکستان کے تمام ایئرپورٹ کی سیکیورٹی پر مامور ہے، اس کی سربراہی حاضر سروس میجر جنرل کرتے اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے تعلقات واضح ہیں، اس کی اعلیٰ قیادت میں 3 بریگیڈیئرز، 2 کرنلز اور 5 میجرز شامل ہیں، واضح رہے یہ عہدیدار اپنی سروس کی وجہ ویسے ہی انتہائی کم قیمت پر پلاٹ حاصل کرسکتے ہیں۔کچھ فوجی افسران کے عارضی تبادلوں کی وجہ سے یہ ادارہ شہری انتظامیہ سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ اے ایس ایف کے ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل بریگیڈیئر عمران کی دھمکی کے باوجود اے ایس ایف آرمی ایکٹ کے ماتحت نہیں بلکہ ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق ادارے کے معاملات اے ایس ایف ایکٹ 1975 کے تحت چلتے ہیں، ویب سائٹ کے مطابق ’24 اپریل 2014 کو اے ایس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد فلاحی اسکیموں کے ذریعے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں اور ان کے اہلِ خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا ہے‘۔

جب اے ایس ایف فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ کرنل محمد افضل سے پوچھا گیا کہ اے ایس ایف کے تمام منصوبے کراچی میں ہی کیوں ہیں تو انہوں نے ایک قہقہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ’کہیں سے تو آغاز ہونا تھا، میں یہاں موجود ہوں اور آنے والے وقت میں مزید بڑے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سرجانی ٹاؤن میں زمین کی قیمت ڈھائی کروڑ سے ساڑھے 3 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے، یہ صرف زمین کی قیمت ہے اس میں زمین پر ہونے والی کسی بھی قسم کی تعمیرات کا تخمینہ شامل نہیں، جس کے 40 ایکڑ رقبے پر اے ایس ایف عریبین وسٹا بنے گا یوں اس کی قیمت کم و بیش ایک ارب سے ایک ارب 40 کروڑ روپے ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرجانی ٹاؤن کے لنک روڈ کی شمالی سمت، کمپلیکس کی مرکزی داخلے کے دوسری طرف فولاد کا ایک نیلے رنگ کا گیٹ نصب ہے جس پر ’اے ایس ایف عریبین وسٹا‘ کندہ ہے جبکہ ایک طویل حد بندی کی دیوار دوسری طرف بھی موجود ہے جس کے کچھ کچھ حصوں پر اے ایس ایف کے سائن بورڈ آویزاں ہیں، کیا اے ایس ایف عریبین وسٹا کے منصوبہ ساز مزید ریاستی زمین پر نظر رکھے ہوئے ہیں جس پر کمپلیکس کو توسیع دی جاسکے۔

اس کے ساتھ ایک اور منصوبہ، اے ایس ایف سٹی کا ہے جس کی بیرونی دیوار کے کچھ حصے سپر ہائی وے پر قائم ڈی ایچ اے سٹی سے متصل ہیں اور یہ منصوبہ بھی 3 ہزار ایکڑ سے کم زمین کا نہیں۔ اس جگہ زمین کی قیمت ایک کروڑ روپے فی ایکڑ ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 9 ہزار سے بھی کم اہلکاروں پر مشتمل سیکیورٹی ادارے کو اس قدر بڑی ’ویلفیئر اسکیم‘ کی کیا ضرورت ہے؟

بے نام اراضی

اے ایس ایف کے آنے والے ریئل اسٹیٹ منصوبوں کی بڑی تصاویر کے ساتھ تین منزلہ عمارت سے آراستہ اے ایس ایف ایف دفتر کراچی ایئرپورٹ ٹارمیک کو نظر انداز کرتا ہے، جو اے ایس ایف کو دیے گئے اصل مینڈیٹ کے کردار کے مناسب ہے۔

اس سلسلے میں کرنل افضل نے ڈان کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ساتھ شامل ہونے کے لیے ورلڈ گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر منیر ٹرنک والا کو بھی دعوت دی۔

کرنل افضل کا کہنا تھا کہ ’ ہم عریبین وسٹا پروجیکٹ کا انتظام دیکھتے ہیں جبکہ انہوں نے ہمیں زمین فراہم کی ہے‘۔

اس دوران منیر ٹرنک والا کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے اے ایس ایف کا تعاون ان کے’برانڈ نام‘ کے ساتھ ساتھ لائف ٹائم منیجمنٹ اور سیکیورٹی کی فراہمی ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’کسی بھی ہاؤسنگ منصوبے میں عنوان سب سے اہم جزو ہوتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ماشااللہ جہاں تک صائمہ عریبین ولاز اور اے ایس ایف عریبین وسٹا کا تعلق ہے یہ مکمل ٹھیک اور وقت کے مطابق ہے‘۔

تاہم سندھ حکومت کی بورڈ آف ریونیو (بی او آر) کی ویب سائٹ (sindhzameen.gos.pk) پر ڈیجٹل زمین ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے، جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ جہاں عریبین وسٹا بن رہا ہے اور جہاں صائمہ عریبین ولاز موجود ہے یہ سرکاری (حکومتی) زمین پر ہے اور بلڈرز نے قانونی ریئل اسٹیٹ انٹرپرائز کی بنیادی شرط یعنی زمین کا عنوان پورا نہیں کیا۔

حیران کن طور پر متعلقہ بی او آر ریکارڈ اچانک ان کی ویب سائٹ سے غائب ہوجاتا ہے اور اس اسٹوری کی اشاعت تک اس تک رسائی ناممکن تھی۔

بی او آر میں موجود ذرائع نے ڈان کو اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے ریکارڈ میں کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ زمین کبھی الاٹ کی گئی تھی، (تاہم یہاں 30 برس کی لیز پر چلنے والے کئی ڈیری فارمز موجود تھے، اس علاقے کو کئی بے ایمان ڈیولپرز کو فراہم کرنے کے لیے بغیر کسی نوٹس کے مبینہ طور پر ان لیز کو منسوخ کیا گیا جبکہ تقریباً 15 لیز رکھنے والے عدالت میں درخواست دائر کرچکے ہیں)۔

28 نومبر 2012 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ’کراچی بد امنی کیس (نمبر 16، 2011) ’بہت زیادہ بدعنوانی اور زمین پر قبضے خاص طور پر سرکاری زمین سے متعلق منظم جرم اور ریونیو ریکارڈ میں بدانتظامی‘ کو تسلیم کیا اور سندھ حکومت کو ’سندھ کے مکمل ریونیو ریکارڈ (مالکانہ ریکارڈ) کی دوبارہ تکمیل تک‘ سرکاری زمین کی لیز یا کسی الاٹمنٹ پر اثرانداز ہونے، منتقل کرنے وغیرہ سے روک دیا۔

اس میں 878 دیہات کی زمین کا وہ ریکارڈ بھی شامل تھا جسے 2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات میں تباہ کردیا گیا تھا۔

(مندرجہ بالا کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے بے ترتیب پھیلے ہوئے بڑے شہروں میں قبضہ مافیا جرائم کی دنیا کا ’باپ‘ ہے، جہاں وہ پناہ گاہ اور عام سبب تلاش کرتے ہیں۔

کراچی میں 13 مارچ 2013 کو اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کے قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے مارچ 2018 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قبضہ مافیا کے عناصر ان کی موت کا ’واضح طور پرفائدہ اٹھانے والوں‘ میں تھے کیونکہ اس کے نتیجے میں ضلع ملیر کے دیہی باشندوں کو زمین کے حقوق سے متعلق مدد فراہم کرنے کے لیے او پی پی کا کام مکمل طور پر رک گیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ نے اس ریکٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بھی دیکھا تھا اور کہا تھا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود قبضہ مافیا میں ملوث تمام گروپس، جس میں اس وقت ایم کیو ایم، اے این پی اور ٹی ٹی پی شامل تھے، نے ’ایک ساتھ ہاتھ ملایا ہوا تھا، یہاں تک کہ ایک دوسرے کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے تھے، شہر میں بڑے ڈیولپرز نے ان گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا ہوا تھا اور وہ (ان) کہ عسکری ونگز کو زمین پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے، اس کے ساتھ جو بھی ان کے راستے میں آتا تھا اسے دھمکی دی جاتی تھی اور اگر وہ پیچھے ہٹنے سے انکار کرتا تھا تو اسے قتل کردیا جاتا تھا، اکثر ان قتل کو سیاسی طور پر حوصلہ افزائی یا دہشت گردی کا اقدام قرار دیا تھا جبکہ اصل میں یہ زمین کے تنازع پر تھے جسے سیاسی قتل کے طور پر دکھایا جاتا تھا‘)۔

2013 میں بی او آر کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک جامع رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں زور دیا گیا کہ کراچی میں شامل 93 دیہات کا ریکارڈ دوبارہ بنایا گیا، ڈپٹی ڈائریکٹر جی آئی ایس، بی او آر اقبال رحمانی کے مطابق ’ڈسٹرکٹ کمشنرز اور مختیارکارز (مقامی لینڈ ریونیو افسران) سے ریکارڈ حاصل کرکے یہاں اسکین کیا گیا اور ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا‘۔

بی او آر کے سینئر رکن محمد حسین سید نے اس بات کو تسلیم کیا کہ’مختیار کار کی سطح پر سندھ میں زمین کے ریکارڈ میں کافی چھیڑچھاڑ ہوتی ہے، خاص طور پر وہاں جہاں ریئل اسٹیٹ کی قیمتیں بڑھی ہوں یا اس بات کا امکان ہو، جیسا کہ جامشورو، ٹھٹھہ اور کراچی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی چھیڑچھاڑ کو روکنے کے لیے بی او آر نے اپنا لینڈ ایڈمنسٹریشن اور ریونیو منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم قائم (ایل اے آر ایم آئی ایس) کیا اور اب تک اس منصوبے کے تحت سندھ کے 6 ہزار 93 دیہات میں 85 فیصد زمین کا ریکارڈ ڈیجٹائزڈ کردیا گیا ہے۔

بی او آر حکام کے مطابق کچھ باقی رہ جانے والے دیہہ جہاں اب بھی ریکارڈ کی تصدیق مکمل طور پر مقامی زمین حکام کی جانب سے کی جاتی ہے لیکن ان میں دیہہ جام چاکرو شامل نہیں ہے۔

جیسا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تسلیم کیا گیا کہ سندھ میں حکومتی زمین کے بہت سے محافظ ہیں، جنہیں اپنے سیاسی آقاؤں کا تحفظ حاصل ہے، جو ریئل اسٹیٹ کی اہم حصوں کو بے ایمان بلڈرز کے حوالے کرتے ہیں اور ملی بھگت سے ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ادھر سندھ میں بی او آر ہے جو صوبائی حکومت کا محکمہ ہے اور یہ زمین کا ریکارڈ برقرار رکھتا ہے اور کسی فرد، سوسائٹیز، ادارے اور تعمیراتی ایجنسی وغیرہ کو خصوصی مقصد کے لیے اسکیمز کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کرتا ہے جبکہ ایس بی سی اے شہری منصوبہ بندی کے قواعد و ضوابط کے مطابق عمارت کی تعمیر کے پلان کی منظوری دیتا ہے۔

مختلف ڈیولپمنٹ ایجنسیاں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیارٹی ڈیولمپنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، وغیرہ لے آؤٹ پلانز کی منظوری کے لیے ذمہ دار ہیں۔

اے ایس ایف عریبین وسٹا اور صائمہ عریبین ولاز کی جانب سے قبضہ کی گئی زمین ایل ڈی اے کے دائرہ کار میں آتی ہے، تاہم ان منصوبوں سے متعلق تحقیقات کرنا واضح طور دشمنی مول لینے کے مترادف ہے۔

پہلے صائمہ عریبین ولاز کے کیس میں مبینہ طور پر غیر قانونی معاملات کا ذکر کرتے ہیں، جس کی حال ہی میں شروع ہونے والے اے ایس ایف منصوبے میں بغیر کسی رکاوٹ کے توسیع کی گئی۔

نومبر اور دسمبر 2016 اور جولائی 2017 میں ایک شہری نے سندھ ٹرانسپیرنسی اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016، آر اے کا حوالہ دیتے ہوئے زمین کے حکام کو صائمہ منصوبے سے متعلق وضاحت کے لیے خط لکھا (اے ایس ایف عریبین وسٹا کا اعلان اپریل 2017 میں کیا گیا تھا)۔

ان خطوط کی نقل اور بھیجے گئے ثبوت ڈان کے پاس موجود ہیں، انہیں ڈی جی ایس بی سی اے، ڈی جی ایل ڈی اے، بی او آر کے سینئر رکن اور دیگر کو بھیجا یا س سی` ڈی کیا۔

ان خطوط میں وہ دستاویزات کی نقل (کاپیاں) مانگی گئی ہیں جو ڈیولپرز/بلڈرز کی ملکیت ظاہر کرتی ہیں اور وہ نوٹسز مانگے گئے ہیں جو لینڈ اتھارٹیز کسی این او سیز کے جاری کرنے سے قبل عوامی اعتراضات کے لیے قانونی طور پر اخبار میں شائع کرتے ہیں، تاہم انہیں کسی جگہ سے کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔

آر اے کی جانب سے زمین کے عنوان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بی او آر تک بھی رسائی کی گئی، 26 سمتبر 2017 کو انہیں بی او آر کے اصلاحاتی ونگ اور خصوصی سیل کے (جی آئی ایس) ڈپٹی ڈائریکٹر سے ایک خط موصول ہوا، جس میں انہیں بتایا گیا کہ ’مطلوبہ ملکیت کی معلومات کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس میں موجود نہیں ہے، تاہم متعلہ مختیار کار اس کی تصدیق شدہ تفصیلات رکھنے کی مجاز اتھارٹی ہے‘۔

حکام کی جانب سے باضابطہ طور پر یہ جواب دیا گیا، تاہم آر اے کو پہلے ہی بی او آر سندھ کے ایک باخبر ذرائع نے نجی طور پر آگاہ کیا تھا کہ دیہہ جام چاکرو، تپو منگھوپیر، گڈاپ ٹاؤن کی زمین سروے نمبر 82، 83 ، 84 اور 85 حکومت کی تھی اور یہ نجی زمین نہیں تھی،(آر اے کے مطابق جب بی او آر میں ان کے ذرائع نے علاقے کی سیٹیلائٹ تصویر نکالی تو وہ دنگ رہ گئے کہ وہاں کسی قسم کی تعمیر نہیں تھی)۔

اس کے باوجود آر اے نے ڈپٹی کمشنر ضلع غربی کو خط لکھا، ساتھ ہی منگھوپیر کے مختیار کار کو نقل بھی ارسال کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اسی طرح انہیں مایوسی ہوئی جب انہوں نے ایل ڈی اے سے اس منصوبے کے لیے اتھارٹی کی جانب سے لے آؤٹ پلانز کے جاری کردہ 10 این او سیز کی درخواست کی۔ اپنے خط میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ’ یہ این او سیز مبینہ طور پر کچھ جعلی دستاویز پر جاری کیے گئے ہیں، برائے مہربانی اس کا نوٹس لیں‘، تاہم انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اس معاملے پر جب ڈان نے 20 ویں گریڈ پر تقرر کیے گئے ایک 18 ویں گریڈ کے افسر ڈی جی ایل ڈی اے عزیز میمن سے بات کی تو پہلے انہوں نے اس بات کو گول مول کرنے اور ٹالنے کی کوشش کی لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں وہ سرکاری محکمے سے متعلق قانونی طور پر عوامی نمائندے کے رکن کے خط کا جواب نہیں دے رہے تو انہوں نے غصے میں نمائندے کو اپنے دفتر سے نکلنے کا کہہ دیا۔

(اتفاقی طور پر عزیز ممین نے چیف انجینئر ایل ڈی اے، ڈائریکٹر ایل ڈی اے فنانس، ڈائریکٹر لینڈ ایل ڈی اے اور دیگر کے مختلف ہیٹس پہن رکھے تھے، یہ اتھارٹی سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف 3 سال سے ایک مکمل ڈی جی کے بغیر کام کر رہی ہے)۔

عریبین وسٹا کیلئے کی گئی گڑبڑ

مئی 2018 کے آغاز میں مختلف اخبارات میں لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے نوٹس شائع کیے گئے جس میں عوام کو ضلع غربی میں منگھوپیر کی 40 ایکڑ کے قریب زمین پر عوامی اعتراضات طلب کیے گئے تھے، یہ نوٹس مختلف زاویوں سے قابل اعتراض تھا۔

نوٹس میں زمین وہی تھی جس پر اے ایس ایف کا عریبین وسٹا منصوبہ بننے جارہا ہے تاہم اس نوٹس میں منصوبے کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں تھا جبکہ ورلڈ گروپ اور اے ایس ایف نے پہلے ہی اس منصوبے کی اسٹار مارکیٹنگ کے ذریعے تشہیر کا آغاز کر رکھا تھا بلکہ انہوں نے 3 نجی صنعت کار، سید جوہر علی قندھاری، محمد ایوب، ارشد اقبال اور دیگر کو اس کا مالک ٹھہرایا تھا جبکہ حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ جگہ ریاست کی ملکیت میں تھی۔

ورلڈ گروپ نے اے ایس ایف کے منصوبے کا اعلان اپریل 2017 میں کیسے کیا اور اے ایس ایف نے اس کی مارکیٹنگ کے بغیر زمین کی ملکیت کے عوامی اعتراضات سنے بغیر کیسے شروع کی۔

یہ سوالات پوچھے جانے پر ٹرنک والا اور کرنل افضل نے دعویٰ کیا کہ ممکنہ طور پر ہوسکتا ہے کہ اے ایس ایف ایف پر عام قواعد لاگو نہیں ہوتے ہوں۔

کرنل افضل کا کہنا تھا کہ ’ہم کچھ نیا کر رہے ہیں، ہمیں اس بارے میں اتنا علم نہیں، ہمیں لگتا تھا کہ اے ایس ایف ایف حکومت پاکستان کے نوٹی فکیشن سے بنا ہے اور ہمیں سندھ حکومت کو معاملے میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں‘۔

سینیئر فوجی افسران کی سربراہی میں چلنے والی ڈی ایچ اے کراچی بھی ملک کی طاقتور لینڈ اتھارٹی ہے اور دہائیوں سے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہے۔

اے ایس ایف ایف جس کی سربراہی بھی فوج کی اعلیٰ قیادت کر رہی ہے کو اپنے ’نئے‘ ریوینیو پیدا کرنے کے لیے مشاورت کی ضرورت نہیں تھی۔

بدقسمتی سے اے ایس ایف کے اعلیٰ عہدیداران جو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کا ماننا ہے کہ وہ اپنے کاروباری منصوبوں کو جیسے چاہے کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ کرنل افضل نے ڈان کو بتایا تھا کہ اے ایس ایف ایف لینڈ اتھارٹیز سے این او سیز وغیرہ حاصل کرنے کے لیے بات کر رہی ہے۔ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں جب انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ریئل اسٹیٹ بزنس میں ’نیا ‘ ہے۔

ٹرنک والا لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے صائمہ کے منصوبوں کے لیے تقریباً ایک دہائی سے معاملات دیکھ رہے ہیں، وہ اے ایس ایف عریبین وسٹا منصوبہ کے شراکت دار ریئل اسٹیٹ کی دنیا میں نئے نہیں ہیں۔

ڈان نے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی سید راحیل علی کا بھی صائمہ عریبین ولاز اور اے ایس ایف عریبین وسٹا کے حوالے سے انٹرویو کیا۔ بورڈ آف ریوینیو سندھ کی حمایت سے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے منظوری جاری کیے جانے پر زور دینے کے علاوہ انہوں نے چند حیران کن ریمارکس دیے۔

روڈ سے گزرتے ہوئے اے ایس ایف عریبیئن وسٹا میں داخل ہوں تو اس بات کے واضح امکانات نظر آتے ہیں کہ منصوبہ ساز اس پراجیکٹ کو سرجانی ٹاؤن لنک روڈ پر شمال کی جانب توسیع دینا چاہتے ہیں— فوٹو: نزیحہ سید علی

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے یقین دہانی کی ہے کہ ایک انچ بھی نجی زمین ادھر سے ادھر نہیں کی گئی‘۔ (خیال رہے کہ ایل ڈی اے اپنی حدود میں نجی زمینوں کے ساتھ ساتھ عوامی زمینوں کی بھی رکھوالی کرتی ہے)۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے سندھ حکومت کے ریاستی زمینوں کے لیز، الاٹمنٹ وغیرہ پر پابندی کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’ایسی صورتحال میں لوگ کام کرنے کا طریقہ کار ڈھونڈتے ہیں‘۔

ایل ڈی اے کی جانب سے ورلڈ گروپ اور اے ایس ایف کو ایسی زمین جو کسی کے نام پر نہیں، پر منصوبے کی تشہیر کرنے اور بکنگ کرنے کی اجازت کیسے دی گئی کے سوال کے جواب میں انہوں نے غیر سنجیدہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو سب ہی کر رہے ہیں‘۔

واضح رہے کہ 3 اکتوبر 2018 کے سپریم کورٹ کے ایک علیحدہ احکامات میں سید راحیل علی لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ان 6 افراد میں شامل ہیں جنہیں برطرف کردیا گیا تھا۔

دیگر افراد کی طرح انہیں پاکستان انجینیئرنگ کونسل سے تصدیق شدہ انجینیئرنگ کی ڈگری نہ ہونے کے باوجود چیف انجینیئر تعینات کیے جانے کا الزام تھا۔

ان تمام ڈیل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات الجھن کا شکار کرتی ہے کہ ایس بی سی اے نے 2017 میں اے ایس ایف کو قانون پر عمل در آمد نہ کرنے پر اظہار وجوہ کا نوٹس دیا تھا تاہم دہائیوں سے زمینی امور میں مہارت رکھنے والے سابق بیوروکریٹس کے مطابق آنکھوں سے نظر آنے والے کے علاوہ بھی اس میں بہت کچھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اے ایس ایف نے ایس بی سی اے کے اوپر سے راستہ بنالیا ہے، ہاتھ رنگے نہیں گئے تھے تو ایس بی سی اے نے اعتراضات کے باوجود اے ایس ایف کو مشکوک صائمہ عریبین ولاز کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی اجازت کیسے دے دی۔

اے ایس ایف ایف کی جانب سے اپارٹمنٹس کی بکنگ جاری ہے جو اربوں روپے اپنے خزانے میں بٹور لیں گے تاہم وہ ایسی زمین پر قائم کیے جائیں گے جس پر کوئی نجی ادارہ یا فرد قانونی ملکیت نہ رکھتا ہو۔

اے ایس ایف کے اس وقت کے ڈی جی میجر جنرل سہیل (جن کی نگرانی میں 4 اے ایف ایف کے ریئل اسٹیٹ کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا) کے ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق اے ایس ایف ایف میں 80 ہزار افراد نے اپنی رجسٹریشن کرائی تاکہ اے ایس ایف ہاؤسنگ اسکیم کی قرعہ اندازی میں حصہ لے سکیں۔ ہر فرد سے 10 ہزار روپے لیے گئے تھے جس سے فاؤنڈیشن رکھنے کے لیے 80 کروڑ روپے کی رقم اکٹھی ہوئی تھی۔

تاہم کارپوریٹ سیکٹر میں درمیانے درجے کے ملازم محمد عرفان ملیر کنٹونمنٹ کے اے ایس ایف ٹاورز کی قرعہ اندازی میں ناکام ہوئے تو انہیں اپنی رقم واپس لینے کے لیے اے ایس ایف ایف کے دفتر تک ایک سال تک چکر لگانے پڑے جس کے بعد انہیں 10 ہزار روپے کا چیک دیا گیا۔

البرکۃ بینک کے ضلع قصور کے برانچ کے چیک، جس پر اے ایس ایف ایف کا نام بھی نہیں تھا بلکہ راحیل عباس کے دستخط تھے کو کیش کرانے کی کوشش کی گئی تو یہ باؤنس ہوگیا۔


یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 4 فروری 2019 کو شائع ہوئی