پاکستان

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی آڈٹ رپورٹ میں بے ضابطگیوں کا انکشاف

سابق سربراہ فرزانہ راجا کے دور میں سرکاری خزانے سے ادائیگیاں کی گئیں، جس سے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، رپورٹ

اسلام آباد: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکنِ اسمبلی فرزانہ راجا کی چیئرپرسن شپ کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں پیش کردہ بی آئی ایس پی کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 13-2012 کے مطابق ’اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں مقابلے کے بغیر پبلک پروکیورمنٹ کی گئیں جس سے خزانے کو 2 ارب 74 کروڑ روپے کا نقصان ہوا‘۔

واضح رہے پبلک پروکیورمنٹ سے مراد سرکاری خزانے سے ادائیگی کے بعد اشیا یا خدمات حاصل کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بینظر انکم سپورٹ پروگرام کی تشہیر پر اربوں خرچ

آڈٹ رپورٹ کے مطابق ’پبلک پروکیورمنٹ رول برائے سال 2004 کے ضابطہ نمبر 12 کے مطابق 20 لاکھ روپے سے زائد کے پروکیورمنٹ بولیوں کے لیے ادارے کی ویب سائٹ، پرنٹ میڈیا یا وسیع سرکولیشن والے اخبار میں اشتہار دیا جائے گا۔

چناچہ بی آئی ایس پی کی انتظامیہ نے وسیلہ صحت (صحت کی انشورنس) کے لیے 27 اپریل 2010 کو تمام بڑے اخبارات میں اشتہار دیا تھا جس پر 8 انشورنس کمپنیوں نے اپنی پیشکش جمع کروائی تھی۔

مذکورہ پیشکش کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے کوئی بھی پیشکش میعار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ نئے سرے سے بولیوں کی تجویز دی تھی تاہم اس کے بعد ہونے والے اجلاس میں بی آئی ایس پی مینجمنٹ بورڈ نے اسے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو سونپ دیا۔

مزید پڑھیں: بی آئی ایس پی میں بدعنوانیوں کی تحقیقات کا فیصلہ

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن نے نہ ہی صحت انشورنس کے لیے بولی جمع کروائی تھی اور نہ ہی اس کا اس حوالے سے کوئی تجربہ ہے لیکن اس کے باوجود بغیر کسی بولی کے اسے ٹھیکہ دے دیا گیا۔

اس سلسلے میں ڈائریکٹر جنرل فیڈرل آڈٹ مقبول گوندل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بتایا کہ بغیر مقابلے کے ایسی کمپنی، جس نے بولی میں حصہ بھی نہیں لیا، کو کانٹریکٹ دیے جانے پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بی آئی ایس پی نے بغیر جائزہ لیے اشتہاری کمپنی کا انتخاب کیا اور اسے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ارب 64 کروڑ روپے بھی ادا کیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: انکم سپورٹ پروگرام میں کرپشن، برطانیہ نے تنقید مسترد کردی

جس پر پی اے سی چیئرمین نے نیب عہدیدار سے اس معاملے کی پیش رفت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ ادارے نے بیورو کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔

اس پر کمیٹی چیئرمین شہباز شریف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیورو نے ان کے خلاف تو 30 منٹ میں ریکارڈ حاصل کرلیا تھا لیکن اس کیس میں 6 سال میں بھی ریکارڈ نہیں مل سکا۔

مذکورہ معاملے پر پی اے سی کی رکن شیری رحمٰن نے تجویز پیش کی کہ بی آئی ایس پی کی سابق چیئر پرسن فرزانہ راجا کو اجلاس میں بلایا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں۔