پاکستان

نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان،شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ

اضافے کے بعد شرح سود 10.25 فیصد مقرر کردی گئی،معیشت سے متعلق غیر یقینی کی صورتحال میں کمی آئی،گورنر اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ کردیا۔

0.25 فیصد اضافے سے شرح سود 10.25 فیصد ہو گئی جس کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا۔

اسلام آباد میں نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق حکومتی اقدامات کے نتائج بتدریج سامنے آرہے ہیں، جن کی وجہ سے صارفین کا اعتماد بڑھا اور معیشت سے متعلق غیر یقینی کی صورتحال میں کمی آئی ہے۔

مزید پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، شرح سود ڈیڑھ فیصد اضافے سے 10فیصد مقرر

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں کمی کے باوجود مالی خسارے میں کمی کے آثار ظاہر نہیں ہو رہے‘۔

طارق باجوہ نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ برآمدات اور زرمبادلہ کی شرح میں اضافے کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی، لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی شرح اب بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی فنانسنگ چیلنجنگ رہی کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری، نجی قرضوں اور سرکاری آمدن خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی‘۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ایک بڑا حصہ ملکی وسائل کے استعمال سے پورا کیا گیا تھا جس کی وجہ سے دسمبر 2018 کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 7 ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگئے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: شرح سود میں اضافے پر کاروباری حلقوں میں تشویش

ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ چند دنوں میں دوطرفہ آمدن کی وجہ سے 25 جنوری تک اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 8 ارب 20 لاکھ ڈالر اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14 ارب 80 کروڑ ڈالر ہوگئے‘۔

طارق باجوہ نے مزید کہا کہ ’معاشی استحکام سے متعلق اقدامات کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں لیکن افراط زر سے متعلق معاشی دباؤ برقرار ہے‘۔

یاد رہے کہ اس سے قبل نومبر 2018 میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے 10 فیصد مقرر کی تھی۔

جو لائی 2018 میں شرح سود بڑھا کر 6.5 سے 7.5 فیصد کردی گئی تھی جبکہ ستمبر میں مزید ایک فیصد اضافے سے شرح 8.5 فیصد ہو گئی تھی۔