جنگ بندی کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے، تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز ایک جامع معاہدے پر پہنچیں، اس سے قبل ایک طویل سفر طے کرنا ابھی باقی ہے۔
لیکن، افغانستان سے انخلا واشنگٹن کے لیے خارجہ پالیسی سے متعلق بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ چونکہ یہ ایک غیر فتح کن جنگ رہی ہے، اس لیے امریکا کی وہاں سے روانگی اتنی آسان نہیں ہے۔ مکمل طور پر انخلا کی اپنی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔ 17 سالہ طویل اس جنگ نے ملک کو مزید تقسیم کردیا ہے۔ جیسے جیسے افغان کھیل آخری مرحلے میں داخل ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے شورش پسندوں نے جنگ کے میدان میں فتوحات اور وسیع ہوتے زمینی کنٹرول سے بلاشبہ کھیل پر اپنا پلڑہ بھاری کرلیا ہے۔
حال ہی میں افغان فوجی اہلکاروں اور تنصیبات پر طالبان کی جانب سے بڑی سطح کے حملوں سے شورش پسندوں کا حوصلہ مزید بلند ہوا۔ جب تک امریکی مکمل فوجی انخلا کے لیے کسی ٹائم فریم پر متفق نہیں ہوتے تب تک طالبان اپنی بندوقیں جھکانے کا دُور دُور تک کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ بلکہ موسمِ بہار میں طالبان کی عسکری جارحیت میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اب یا تو یقینی لڑائی کی فضا بنے گی یا پھر یقینی بات جیت کی۔
امریکا کی جانب سے خود کو باہر نکالنے کی خواہش کو ان طالبان کی فتح کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو چند برسوں کے دوران زبردست بین الاقوامی شناخت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح حکومت کے اندر اور باہر افغان گروپس کے درمیان خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خلیل زاد کے لیے ایک سب سے بڑا چیلنج ان تمام گروپس کو ایک جگہ پر لانا ہوگا۔
صدر اشرف غنی کی ڈیوس میں تقریر میں امریکی انخلا کے منصوبے اور حکومت کے خدشات کے درمیان خیلج کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا سے طالبان مزید مضبوط ہوسکتے ہیں اور افغانستان کو ایک دوسری خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ یہ خدشات جائز ہیں اور یہ ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والی کسی بھی ڈیل میں ان خدشات کو لازمی طور پر دور کیا جائے۔
اس کے بعد افغانستان میں خطے کی سطح پر ایک ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس کے تحت افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے۔ علاقائی ممالک کی مداخلت سے افغانستان میں خانہ جنگی کو ہوا ملی ہے۔ ہمیں ایک غیر معمولی پیش رفت تو نظر آئی ہے، البتہ افغانستان میں قیام امن کا سفر اتنا آسان نہیں ہوگا۔
یہ مضمون 30 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔