پاکستان

سانحہ ساہیوال: سینیٹ کمیٹی اور ورثا کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

ذیشان خاندان کا واحد کفیل تھا، اگر وہ دہشت گرد تھا تو ایسے کیوں مارا گیا، والدہ کا قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بیان
| |

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین اور سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر پوری قوم کی ایک آواز ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور قانون کے مطابق وزیر داخلہ اس کمیشن کا اعلان کرسکتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کا اعلان ہوجاتا ہے تو اس معاملے میں آدھے سے زیادہ کام ہوجاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ عوام کو ایک پیغام جاسکے۔

انہوں نے کہا ہم نے وزیر اعظم کو خط لکھ دیا ہے اور 3 دن تک اس کا انتظار کریں گے، جس کے بعد معاملے کو ایوان میں اٹھایا جائے گا۔

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سانحہ ساہیوال پر نوٹس لیا اور کمیٹی متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی، لواحقین کو پولیس کی جے آئی پر بھروسہ نہیں، لہٰذا اس پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعے کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد نہیں بلایا، رحمٰن ملک

انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر وزیر اعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاملے پر فوری توجہ دیں اور جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کریں۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس

قبل ازیں سانحہ ساہیوال کے متاثرین خلیل اور ذیشان کے اہل خانہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پیش ہوئے، جہاں انہوں نے واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

چیئرمین کمیٹی رحمٰن ملک کی صدارت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا، جس میں سانحہ ساہیوال کے متاثرہ افراد کے ورثا نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان کے درمیان سانحہ ساہیوال کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی جبکہ چیئرمین کمیٹی رحمٰن ملک نے اس واقعے کو ٹارگٹ کلنگ قرار دے دیا۔

آج ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں سانحہ ساہیوال کا معاملہ بھی شامل تھا، جس پر گفتگو کرتے ہوئے رحمٰن ملک نے کہا متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا۔

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ جو لوگ مارے گئے میں ان کو شہید کہوں گا، ہم کوئی چیز چھپنے نہیں دیں گے اور متاثرہ خاندان کو تحفظ بھی دیں گے۔

اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی کے ارکان نے ساہیوال واقعے کے مقتولین کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی اور سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ آپ سے تعزیت و افسوس کا اظہار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لواحقین پر کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے، لواحقین ایسے محسوس کریں کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کرے گی اور ہم چاہتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کی مکمل تفتیش ہوکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔

اجلاس کے دوران مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ واقعے پر بنائی گئی جے آئی ٹی کو ختم کرکے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، ساتھ ہی قائمہ کمیٹی کی جانب سے جے آئی ٹی کو مسترد کردیا گیا۔

جاوید عباسی نے کہا کہ اس سارے کیس میں پولیس والے ملوث ہیں، پولیس والے کیسے منصف بن سکتے ہیں، پولیس والوں نے خود فائرنگ کی، جے آئی ٹی میں بھی پولیس کے لوگ ہیں وہ خود انصاف نہیں کریں گے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے سوال کیا کہ قائمہ کمیٹی، سینیٹ اور ہم نے اس جے آئی ٹی کو نہ ماننے کا کہا تو پھر کس حیثیت میں جے آئی ٹی کام کر رہی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ساہیوال واقعے پر صوبائی وزرا نے جھوٹ بولا، اس پر اجلاس میں شریک تحریک انصاف کے نمائندوں نے اعتراض کیا اور دونوں جماعتوں کے اراکین میں تلخ کلامی دیکھنے میں آئی۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سانحہ ساہیوال میں مارے گئے ذیشان کی والدہ نے کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ ذیشان ان کے خاندان کا واحد کفیل تھا۔

انہوں نے کہا کہ ذیشان نے آئی سی ایس کر رکھا تھا، 25 سال سے ہم اس کرائے کے گھر میں رہ رہے تھے، اگر ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تو ایسے مارا کیوں گیا، بھارتی جاسوس بھی تو زندہ پکڑا تھا تو پھر ذیشان کو کیوں نہیں پکڑا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیشان کی بیٹی کو دہشت گرد کی بیٹی اور مجھے دہشت گرد کی ماں قرار دیا گیا ہے، میرے بیٹے کے اوپر سے دہشت گرد کا ٹھپہ ہٹایا جائے۔

ذیشان کی والدہ کا کہنا تھا کہ وزرا ٹیلی ویژن پر آکر ذیشان کو دہشت گرد کہتے ہیں، کیا وزرا کو تمیز نہیں ہے۔

ذیشان کی والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے نے آئی سی ایس کمپوٹر سائنسز میں کیا ہوا تھا، وہ لیکچر بھی دیتا تھا جبکہ پرچون اور تھوک کا کام کرتا تھا اور کمپیوٹر فروخت کرتا تھا۔

رحمٰن ملک نے کہا کہ حکومت کے اختیار میں ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تو پھر حکومت کیوں نہیں بنارہی، کمیٹی باقاعدہ طور پر جے آئی ٹی کو مسترد کرتی ہے۔

اجلاس کے دوران ذیشان کے بھائی نے بتایا کہ ہم 2 بھائی تھے، والد نہیں تھے ماں نے ہمیں گھروں میں کام کر کے پالا ہے، میرے بھائی کے خلاف کوئی مقدمہ، کوئی ایف آئی آر، کوئی رپورٹ اور پورے ملک میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: ساہیوال کا آپریشن 100 فیصد درست تھا، وزیرقانون پنجاب

انہوں نے کہا کہ جب میں نے ڈولفن فورس میں اپلائی کیا تو میری 2 مرتبہ تصدیق ہوئی، میں نے فارم میں والد کی جگہ بھائی کے شناختی کارڈ کی نقل لگائی تھی، اگر انصاف کرنا ہے تو آج اس کیس میں انصاف کر دیا جائے۔

دوران اجلاس سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ بینظیر بھٹو کا کیس بھی اسی طرح خراب کیا گیا تھا، اس کیس کو آدھے سے زیادہ خراب کر دیا گیا ہے، بینظیر بھٹو قتل کیس کو خراب کرنے کے لیے بھی جائے وقوع کو دھویا گیا جبکہ پولیس نے ساہیوال واقعے کو بھی خراب کردیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن بنائے کیونکہ جن لوگوں نے بیانات بدلے ہیں وہ بھی اس کیس میں شامل ہیں۔

بعدا ازاں اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے وزرا کے بدلتے بیانوں کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو تحقیقات کی ہدایت کردی۔

ساہیوال واقعہ

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

بعد ازاں سانحے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کردی تھی۔

رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہل خانہ بے گناہ تھے جبکہ انہوں نے ذیشان کے حوالے سے مزید تفتیش کیلئے مہلت طلب کی تھی۔

راجہ بشارت نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔