پاکستان

آصف زرداری نااہلی درخواست: مطمئن کرنا ہوگا کہ یہ کیس مفادِ عامہ کا ہے، ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نا اہلی کیلئے دائر درخواست پر اعتراضات ختم کرکے رجسٹرار کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
|

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر اعتراضات ختم کرکے اسے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے آصف علی زرداری کی نا اہلی کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنماؤں کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی اور اس پر موجود اعتراضات ختم کردیئے۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اتنے زیر التوا مقدمے چھوڑ کر آپ کا کیس ترجیح بنیادوں پر کیوں سنیں، آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ یہ کیس مفادِ عامہ سے تعلق رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کی آصف زرداری کی نااہلی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ سیاسی درخواست عدالت میں لے کر کیوں آتے ہیں، اس درخواست کا متعلقہ فورم الیکشن کمیشن ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں متعدد کیسز زیر التوا ہیں، یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کیا جائے، پارلیمنٹ اس معاملے پر کمیٹی بنا سکتی ہے۔

عدالت عالیہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی فورم پر حل کیا جانا چاہیے، جس پر درخواست گزار کے وکیل سکندر بیشر مہمند نے عدالت کو بتایا کہ دستاویزات موجود ہیں کہ آصف علی زرداری نے اثاثے چھپائے جبکہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ فورم نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن مجاز نہیں۔

خیال رہے کہ آصف علی زرداری کی نا اہلی کے لیے درخواست گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار اور خرم شیر زمان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آصف علی زرداری کی نااہلی کیلئے دائر درخواست واپس کردی

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آصف علی زرداری نے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے چھپائے، جس کے باعث وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ سابق صدر آصف زرداری این اے 213 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، تاہم اثاثے چھپانے پر انہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔

زرداری نا اہلی کیس کا فیصلہ تاریخی ہوگا، عثمان ڈار

سماعت کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کا کہنا تھا کہ کاش وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، آصف علی زرداری سے پوچھتے کہ یہ کروڑوں کی جائیداد کہاں سے آئی؟

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ سے پوچھتا ہوں کہ اب انہیں پاکستان ڈوبتا نظر آرہا ہے سندھ ڈوبتا دکھائی نہیں دیتا؟

انہوں نے مراد علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو لوگوں نے وزیراعلیٰ اس لیے نہیں بنایا اور ساتھ ہی تجویز دی کہ مسلم لیگ (ن) سے سبق سیکھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی میں بہت تاریخی فیصلے دیئے ہیں اور زرداری نااہلی کیس کا فیصلہ بھی تاریخی ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ واضح کیس ہے کہ زرداری نے اپنی جائیداد ظاہر نہیں کی جبکہ ان کے استعمال میں 2 بلٹ پروف گاڑیوں کی مالیت کروڑوں روپے ہے، 'میرا ماننا ہے کہ آصف زرداری تاحیات نااہل ہوں گے'۔

پی ٹی آئی رہنما کی درخواست

اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی رجوع کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے آصف زرداری کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست دی تھی تاہم انہوں نے اس درخواست کو واپس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

21 جنوری کو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ آصف علی زرداری نے 2018 کے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی، آصف علی زرداری نے فارم اے اور فارم بی میں بہت ساری غلط بیانیاں کی ہیں۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کی آصف زرداری کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے نیو یارک اپارٹمنٹ، پارکنگ اسپیس اور 2 بلٹ پروف گاڑیاں کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں، چھپائے گئے اثاثوں کی مالیت 14 کروڑ 37 لاکھ روپے بنتی ہے۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ آصف علی زرداری کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔

تاہم 24 جنوری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کو اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ درخواست گزاروں نے متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا، فورم کی دستیابی کے باوجود درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔