پاکستان

سینیٹ: ای سی ایل، بلیک لسٹ کے علاوہ ایک اور لسٹ موجود ہونے کا انکشاف

بلیک لسٹ آئین کے آرٹیکل کے خلاف ہے اوراس حوالے سے ایکشن لینے والے محکمے یاافسر کے خلاف کارروائی بنتی ہے، سینیٹر رضاربانی

سینیٹ کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) رہنما شیری رحمٰن نے انکشاف کیا کہ ایگزٹ کنڑول لسٹ (ای سی ایل) اور بلیک لسٹ کے علاوہ ایک اور لسٹ بھی موجود ہے جس کے تحت لوگوں کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکا جاتا ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جہاں سفری پابندیوں پر بلیک لسٹ سے متعلق سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ پر بحث ہوئی۔

سینیٹ اجلاس کے دوران شیری رحمٰن نے کہا کہ ایک فاضل وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر بتایا ہے کہ بلیک لسٹ کے علاوہ بھی ایک لسٹ ہے جس کے تحت راتوں رات ایئرپورٹ پر لوگوں کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لسٹ کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر لوگوں کو روکا جاتا ہے، یہ عمل آمریت کے دور میں بھی نہیں دیکھا، بدترین آمریت کے دور میں بھی صرف ای سی ایل ہوتی تھی۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ بلیک لسٹ بنیادی حقوق کی بات ہے، ای سی ایل کے علاوہ بلیک لسٹ کس بنیاد پر بنائی گئی، سیاست دانوں کو بھی ائرپورٹ پر روکا جاتا ہے، راتوں رات لسٹیں بنائیں اور ختم کی جا رہی ہیں، ملک میں لوگوں کو روکنے کے لیے تین، تین لسٹیں کیسے چل رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:حمزہ شہباز کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی، دوحا جانے سے روک دیا

اس موقع پر سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ کمیٹی کی تحقیقات کے دوران بلیک لسٹ کی بات کھل کر سامنے آئی، وزرات داخلہ، ایف آئی اے، پاسپورٹ اینڈ امیگریشن حکام اس قانون سے لاعلم تھے جس کے تحت بلیک لسٹ بنائی گئی جبکہ بلیک لسٹ کو کسی قانون کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلیک لسٹ بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکل کے خلاف ہے، کوئی بھی ایکشن جو کسی محکمہ یا افسر نے بلیک لسٹ کے حوالے سے لیا وہ آئین اور قانون کے خلاف ہے اور اس افسر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی بنتی ہے۔

رضاربانی نے کہا کہ پاسپورٹ مینول ترامیم کے وقت 2006 میں کوئی بلیک لسٹ شامل نہیں کی گئی تھی، ایف آئی اے حکام کہتے تھے کہ ہمیں تو لسٹ پاسپورٹ آفس سے فراہم کی جاتی ہے، پاسپورٹ حکام کی جانب سے ان کا نام نہیں لیا گیا جن کا نام لینا بنتا تھا کیونکہ وہاں ان کے پر جلتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ حکام نے کہا کہ بلیک لسٹ عدالتوں سے آتی ہے، پاسپورٹ حکام سے پوچھا کہ عدالت سے یہ بلیک لسٹ اس وقت نہیں آئی جب ارٹیکل چھ کے مجرم کو ملک سے فرار ہونے دیا۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے وقت کیا وہ بلیک لسٹ وائٹ لسٹ ہوگئی تھی۔

ای سی ایل اور بلیک لسٹ کے ساتھ تیسری لسٹ کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیسری لسٹ کو بھی قانون کی پشت پناہی حاصل نہیں ہو گی، وزارت داخلہ ایوان کو بتائے کہ پی این آئی ایل لسٹ کیا ہے، اس لسٹ پرلوگوں کے نام کون ڈالتے ہیں، قانون کے تحت یہ لسٹ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ: زلفی بخاری پر سے سفری پابندی ہٹانے کی درخواست مسترد

انہوں نے کہا کہ رپورٹ تیار کرنے پر کمیٹی چئیرمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اس رپورٹ پر اس لیے مبارک باد نہیں دے رہا کہ اس لسٹ کو ختم کرنے سے پارلیمان کا راستہ کھل جائے گا بلکہ یہ بلیک لسٹ مزدوروں سے پیسے لینے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بلیک لسٹ کے معاملے پر کسی ایک حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، اس معاملے پر خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے، یہ پاکستان کی ریاست اور عوام کی بات ہے، اس معاملے کو حکومت کابینہ میں یہ اٹھائے۔

سینیٹ اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ پی این آئی ایل لسٹ ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) بھیجتی ہے، پتہ نہیں ایوان میں کوئی نام کیوں نہیں لے پا رہا۔

سینیٹر نعمان وزیر کا کہنا تھا کہ 2018 میں 16 لوگوں کے نام پی این آئی ایل میں ڈالے گئے، وائٹ کالر کرائم ایک ایسا معاملہ ہے جس کو ثابت کرنے میں وقت لگتا ہے، یہاں پر وہ لوگ چلا رہے ہیں جن کو اپنے جاننے والوں کا خوف ہے۔

پارلیمانی امور کے وزیرمملکت علی محمد خان نے کہا کہ تحفظات کا اظہار ہوگیا ہے، وزیر داخلہ ایوان میں آئیں گے اور آگاہ کریں گے تاہم پاکستان سے باہر جو بھی جائے گا وہ قانون کے مطابق ہی جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ رمزی یوسف، عافیہ صدیقی اور ایمل کاسی کو باہر کیسے بھیج دیا گیا تھا وہ اپنا بندہ آکر چھڑا کر لے جاتے ہیں کیا ہم میں ہمت ہے، کیا بغیر پاسپورٹ کے لوگوں نے بھارت سے پاکستان آکر فیکٹریوں میں کام نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ ساہیوال: ‘مقتولین کے اہل خانہ کی جان کو خطرہ ہے‘

وزیرمملکت کا کہنا تھا کہ اگر ایک دہشت گرد ملک سے باہر جانا چاہتا ہے تو ایجنسیاں اسے روکنے کے لیے کیا کابینہ کے اجلاس کا انتظار کریں۔

اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے اظہار خیال کے بعد سینیٹ نے بلیک لسٹ سے متعلق رپورٹ منظور کرلی۔

ساہیوال واقعہ

سینیٹ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا اور اسی لیے سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

سینیٹ کی داخلہ کمیٹی نے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد بلا لیا ہے اور رپورٹس کے مطابق چیئرمین کمیٹی رحمٰن ملک نے مقتول کے بھائی جلیل سے فون پر رابطہ کیا اور واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ دو روز قبل سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو اسلام آباد بلا لیا گیا تھا لیکن ان سے کسی نے ملاقات نہیں کی تھی جبکہ سینیٹ چیئرمین اور داخلہ کمیٹی کے چیئرمین نے بھی انہیں طلب کرنے کی خبر کو مسترد کردیا تھا۔

دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے شہری خلیل کے بھائی کے وکیل شہباز بخاری نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتول خلیل کے اہلِ خانہ کی جان کو خطرہ ہے۔

میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی ) کے اہلکار اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزم عائد کیا کہ سی ٹی ڈی کے ایک افسر نے مجھے فون کر کے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، سی ٹی ڈی اس سارے معاملے کو مس مینجمنٹ کر رہی ہے، حکمرانوں سے گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔