پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لیے ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیئے ہیں، ان قربانیوں کی بدولت ہی ملک میں آج امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تقریباً گزشتہ دو دہائی کے دوران 9 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں، اس جنگ میں 50 ہزار سے زائد شہری بھی جاں بحق ہوئے۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے قیام امن کے لیے ملک کے ہر حصے میں مختلف کارروائیاں کیں اور ان کارروائیوں میں انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، مگر اس دوران کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے جنہوں نے سیکیورٹی اداروں کے ’مسلح مقابلوں‘ کو مشکوک بنا دیا اور ان کے کارناموں پر سوالات اٹھنے لگے۔
حال ہی میں پیش آنے والے سانحہ ساہیوال، اس سے قبل نقیب اللہ قتل، امل عمر قتل، قصور میں بچی سے زیادتی کے مبینہ ملزم کا ماورائے عدالت قتل، خروٹ آباد واقعہ، ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد کی زیر حراست ہلاکت، انتظار احمد اور محمد مقصود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے مقدمات اور اسی طرح کے دیگر بے شمار واقعات نے مسلح مقابلوں کو مشکوک کردیا ہے جن میں سیکیورٹی ادارے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مارے جانے والے دہشت گرد تھے تاہم مقتولین کے ورثا کی جانب سے سامنے والی تفصیلات اس حقیقت کے بلکل برعکس تھیں۔
پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی ایک طویل فہرست موجود ہے، ایسے واقعات کچھ روز تک اخبارات اور ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا کی زینت بننے کے بعد ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
کوئی ہرجانہ امل عمر کو واپس نہیں لا سکتا،
سابق چیف جسٹس
واضح رہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والے سانحہ ساہیوال، جس میں پولیس نے مقابلے کے دوران 2 خواتین سمیت 4 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا لیکن صورت حال اس سے مختلف بتائی جارہی ہے، اس جیسے دیگر واقعات، جن میں نقیب اللہ قتل و دیگر شامل ہیں، نہ صرف منظر عام پر آئے بلکہ ان کے حوالے سے حکام کی جانب سے نوٹسز بھی لیے گئے، عدالتوں میں کیسز بھی سماعت کے لیے مقرر ہوئے لیکن ۔۔۔
لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا، یہاں تک کہ ان مقدمات کے حوالے سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ 'انصاف ہوتے ہوئے دکھائی دینا چاہیے' جبکہ قاتل ضمانتیں حاصل کرکے یا دباؤ کے ذریعے ورثا سے معافی حاصل کرنے کے بعد دندناتے نظر آئے، یہاں تک کے ایک کے بعد ایک سانحات سامنے آتے رہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ایسے واقعات کی وجوہات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں سیکیورٹی اداروں کے اقدامات کی نگرانی کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکام کی ایسے واقعات میں لاپروائی اور قانون سازی کا فقدان بھی ایسے واقعات کے مسلسل سامنے آنے کی وجوہات میں شامل ہے۔
سانحہ ساہیوال
19 جنوری 2019 کو صوبہ پنجاب کے علاقے ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اہلکاروں نے ایک آلٹو کار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور 13 سالہ لڑکی سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے، ابتدا میں ان افراد کے حوالے سے سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ یہ اغوا کار تھے اور ان کے قبضے سے 3 مغوی بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔
بعد ازاں سی ٹی ڈی نے مقتولین کو دہشت گرد قرار دیا جبکہ حکام کے بیانات بدلتے رہے، یہاں تک ابتدا میں پولیس نے واقعہ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، جس کے بعد مقابلہ مشکوک ہوگیا، دوسری جانب واقعے میں 'بازیاب' کرائے گئے زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعے کے مشکوک ہونے کو مزید تقویت فراہم کی۔