دنیا

’افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت‘

دوحہ میں 6 روز سے جاری مذاکرات ختم، غیر ملکی افواج کے انخلا اور اہم معاملات پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا،طالبان

پشاور: افغان طالبان نے گزشتہ ہفتے قطر میں امریکی نمائندے کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں مثبت پیش رفت کی جانب اشارہ کیا ہے لیکن جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے معاملے پر امریکا کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہونے کی تردید کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک تفصیلی بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ دوحہ میں موجود ان کے سیاسی مرکز اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے ساتھ مسلسل 6 روز تک جاری رہنے والے مذاکرات بالآخر اختتام پذیر ہوگئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایجنڈے کے مطابق افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور دیگر اہم معاملات پر ہونے والے ان مذاکرات میں اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں مذاکرات

تاہم یہ معاملہ پیچیدہ نوعیت کا ہے جس پر مزید تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے چنانچہ اس حوالے سے بات چیت کا سلسلہ مستقبل میں بھی برقرار رکھا جائے گا اور اس سے اپنی اپنی قیادت کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

مذاکرات میں واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ جب تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر سمجھوتہ نہیں ہوجاتا کسی اور معاملے پر سمجھوتہ ہونا نا ممکن ہے۔

علاوہ ازیں طالبان ترجمان نے میڈیا میں چلنے والی ان رپورٹس کی بھی تردید کی جس میں کہا جارہا تھا کہ امریکی نمائندہ خصوصی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سمجھوتہ ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

دوسری جانب جہاں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے امریکا اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات میں معاونت فراہم کرنے پر پاکستانی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے سراہا وہیں افغان طالبان نے ا س کے لیے صرف قطری حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

علاوہ ازیں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے بھی مذاکرات میں ہونے والی پیش کش کو حوصلہ افزا قرار دیا اور ٹوئٹر پر زلمے خلیل زاد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔

اپنے پیغام میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ ’امریکا افغانستان میں قیامِ امن اور افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا حصہ بننے سے روکنے کے لیے سنجیدہ ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مفاہمتی عمل میں طالبان کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کے سپرد

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا افغان حکومت اور دیگر تمام فریقین کے ساتھ مل کر افغانستان کی سلامتی، آزادی اور خوشحالی کو تقویت دینا چاہتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی اور طالبان کے درمیان 6 روز تک جاری رہنے والے مذاکرات ہفتے کو ختم ہوئے تھے جس کے بعد زلمے خلیل زاد افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ اپنے تعاون کو برقرار رکھنے کے لیے کابل آگئے تھے۔

اس بارے میں ایک سینیئر افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندے افغان صدر اور دیگر اعلیٰ حکام کو واشنگٹن واپس جانے سے قبل مذاکرات میں ہونے والی بات چیت اور پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔