پاکستان

ساہیوال واقعے کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد نہیں بلایا، رحمٰن ملک

یہ معاملہ ہمارے ایجنڈے میں ہے، ہم نے وفاقی حکومت کو خط لکھا تھا کہ ہمیں لواحقین کی معلومات دی جائیں، سابق وزیر داخلہ
|

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ قائمہ کمیٹی نے سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد نہیں بلایا تھا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال پر عدالتی کمیشن بننا چاہیے اور جن لوگوں کا اس میں نام آیا ہے اور بے گناہ لوگوں کو، جنہوں نے نشانہ بنایا، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف یہی تھا کہ یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ لگتا ہے اور جن لوگوں کو انہوں نے مارا انہیں معلوم تھا کہ وہ کسے مار رہے ہیں اور اگر ذیشان واقعی دہشت گرد تھا تو یہ ثابت کیا جائے۔

سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل اور اہل خانہ کو اسلام آباد بلانے کے معاملے پر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ میں نے جلیل کو کہا تھا کہ انتظار کریں ہم آپ کو بلائیں گے اور سینیٹ کی گاڑی جاکر انہیں لائے گی۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ ہم نے خلیل کے لواحقین کے کسی فرد کو اسلام آباد نہیں بلایا، یہ معاملہ ہمارے ایجنڈے میں ہے، ہم نے وفاقی حکومت کو جو خط لکھا اس میں یہ کہا گیا کہ ہمیں لواحقین کی معلومات دی جائیں اور انہیں بلایا جائے، ساتھ ہی ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس علاقے کا کونسلر اور ایم پی اے کو بھی بلایا جائے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس تمام معاملے کے لیے ہم نے ایک دن مقرر کیا ہے، اگر ہم کل انہیں بلاتے تو شاید وہ انصاف نہیں مل پاتا جو انہیں فراہم کرنا ہے، لہٰذا میں یہ واضح کرتا ہوں کہ ہماری لواحقین سے ہمدردی ہے اور ہم آپ کی بات کو سنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی پر جو الزام لگا کہ ہم نے انہیں بلایا تو یہ بات غلط ہے، اگر کل مجھے یہ بتا دیا جاتا کہ ان کے لواحقین موجود ہیں تو میں خود انہیں بلا کر لے آتا۔

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ انشاءاللہ ایک سے 2 روز میں ہم انہیں نوٹسز جاری کریں گے اور میڈیا کو بھی آگاہ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معلومات حاصل کرنے کے خط پر پولیس کا متاثرہ خاندانوں کو لے آنا غلط ہے، ہوسکتا ہے کسی اور اتھارٹی نے انہیں بلایا ہو لیکن سینیٹ کی کمیٹی نے انہیں نہیں بلایا۔

متاثرہ خاندان کو بلانے کا معاملہ، معمہ بن گیا

واضح رہے کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کو اسلام آباد بلانے کا معاملہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پولیس متاثرہ خاندان کے اہل خانہ کو اسلام آباد لے کر گئی تھی، تاہم وہاں ان کی کسی سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔

اس معاملے پر خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا تھا کہ ان کے اہل خانہ کو صدر مملک ڈاکٹر عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے لیے بلایا گیا لیکن ملاقات نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال کا آپریشن 100 فیصد درست تھا، وزیرقانون پنجاب

ادھر متاثرہ خاندان کو اسلام آباد بلانے کی ذمہ داری کسی ادارے کی جانب سے قبول نہیں کی گئی اور صدر مملک اور چیئرمین سینیٹ کے ترجمان کے بعد قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بھی جلیل اور اہل خانہ کو بلانے کی تردید کردی۔

اس حوالے سے ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز گل کا کہنا تھا کہ مقتول خلیل کے خاندان کو صدر پاکستان اور چیئرمین سینٹ نے نہیں بلایا بلکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے متاثرہ خاندان کو بلایا تھا۔

شہباز گل کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب اور سیکریٹری داخلہ کو بھی بلایا تھا، تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے لواحقین سے ملاقات نہیں کی۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ترجمان ریاض علی طوری نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کے لواحقین کو کمیٹی کے 25 جنوری کے اجلاس میں بلانے کا کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ سینیٹ کے قوائد کے تحت کمیٹی کے شرکاء کو اجلاس کے بارے میں وقت، تاریخ و مقام کے تعین کے ساتھ باقاعدہ نوٹس جاری کیا جاتا ہے، لواحقین کو بلانے کا مقصد ان سے ان کا موقف و تحریری بیان لینا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ساہیوال واقعے کے متاثرین اور مقامی کونسلرز کو آئندہ ہفتے نوٹسز جاری کیے جائیں گے اور مقامی رکن قومی وصوبائی اسمبلی کو کمیٹی اجلاس میں بلایا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ ساہیوال واقعے کے متاثرین کو سننا کمیٹی کے ایجنڈے میں پہلے سے شامل ہے، متاثرین کو لاہور سے اسلام آباد لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی سینیٹ سیکریٹ کی جانب سے کیا جائے گا۔

ترجمان نے مزید کہا کہ قائمہ کمیٹی کو سانحہ ساہیوال کے لواحقین کی اسلام آباد میں موجودگی کی اطلاع پولیس اور وزارت داخلہ نے نہیں دی، اگر کمیٹی کو بتایا جاتا تو انکو لازمی بلایا جاتا۔

ساہیوال واقعہ

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔