روحی بانو : تاریک سماج کا روشن چہرہ
روحی بانو نے اپنے فن سے یہ ثابت کیا کہ صرف ایک اداکار ہونے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ ’ادا‘ کو ادائے دلرُبا بھی بنانا پڑتا ہے
کون کہتا ہے، روحی بانو مرگئیں؟ اس رخصت کے بعد ہی تو وہ زندہ رہیں گی۔ ہمارے سماج کے منہ پر ایک طمانچہ بن کر، جہاں مادیت پرستی کی دوڑ میں بے حسی بڑھتی جا رہی ہے۔
لاہور کی گلیوں میں، جہاں روحی بانو نے ایک طرف اپنا فنی عروج دیکھا، وہیں دوسری طرف ان کو بے سرومانی نے آن گھیرا۔ اسی شہر میں ازدواجی زندگی کے سفاک مظالم، اکلوتے بیٹے کا خون اور معاشرتی بے حسی کی پرچھائیوں میں روحی بانو کا درد بولتا رہے گا۔ نہ یہ واقعہ پہلا ہے، نہ بات نئی، روحی بانو ہی کیا، جمیل فخری ہوں یا فہمیدہ ریاض، ان سب کا دکھ مشترکہ تھا۔ اولاد کا دکھ لیے اس دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن زندگی کی سفاکی جس طرح روحی بانو کے حصے میں آئی، وہ کسی دشمن کے حصے میں بھی نہ آئے۔