چین: بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو (بی آر آئی) اور سی پیک پاکستان کے لیے سنہرے موقعے ہیں۔ مگر یہ جادو کی چھڑیاں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ملک پاکستان میں اتنی بڑی سطح پر سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہتا۔
پاکستان کو غیر سنجیدہ عوامی بیانات سے گریز کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ چینیوں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ان کا ایک قابل بھروسہ اقتصادی اور اسٹریٹک ساتھی ہے۔
چین کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ ان خدشات کو دور کرنا ہوگا۔ باہمی قوت بخش پالیسیوں کے ذریعے چینی اور پاکستانی ’خوابوں‘ کو ایک اشتراکی وژن میں بدلنا ہوگا۔ جس طرح بی آر آئی کے تناظر میں سی پیک کی اہمیت ہے اسی طرح سی پیک کے تناظر میں پاکستان کی تبدیلی اہم ہے۔
حساس معاملات کو خفیہ انداز میں، تدبر کے ساتھ اور مکمل باہمی اعتماد کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے۔
امریکا: یہ ہندوستان کا اسٹریٹجک اتحادی ہے۔ ہندوستان نے پاکستان پر توجہ مرکوز کیے رکھی ہے جبکہ امریکا نے چین پر۔ امریکا پاکستان کا اسٹریٹجک ساتھی نہیں بن سکتا۔ مگر اس کی دوستی فائدہ مند جبکہ دشمنی نقصاندہ ہے۔ پاکستان کو افغان حل کے لیے چین کی مشاورت کے ساتھ امریکا سے مل کر کام کرنا ہوگا۔
افغانستان: پاکستان ہندوستان کو افغان حل مرحلے سے نکال نہیں سکتا۔ نہ ہی پاکستان کو ایسی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان اپنے صحیح پتے کھیلتا ہے تو اسے افغانستان میں ہندوستان سے کہیں زیادہ بہتر بازی جیتنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ افغان طالبان اپنی موجودہ فوجی کامیابیوں کے باوجود افغانستان کا مستقبل نہیں ہیں اور جب تک طالبان افغان حل کے لیے تعاون نہیں کرتے تب تک وہ پاکستان کے لیے 21ویں صدی کا اثاثہ بھی نہیں بن سکتے۔
ہندوستان کو چھوٹے دل والا بڑا پڑوسی کہنا بالکل بھی غلط نہیں۔ جبکہ سوویت قبضہ کے دوران افغانستان میں پاکستان کو حاصل ہونے والے خیر سگالی کے بے پناہ جذبات کے باوجود کئی افغان باشندے پاکستان کو بطور پڑوسی اسی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ کیوں؟
پاکستان کو اپنے لیے 2 محاذوں کو قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھوٹے پڑوسی کی جانب بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہی ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ جب بنیادی معاملات ٹھیک ہوں تو چند مخصوص مسائل باآسانی حل ہو ہی جاتے ہیں۔
یہ مضمون 26 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔