مڈل اور ہائی اسکولوں کی مناسب تعداد نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر، ضلع رحیم یار خان میں 2 ہزار 200 کے آس پاس سرکاری پرائمری اسکول موجود ہیں، لیکن ہائی اسکولوں کی تعداد صرف 220 ہے۔ اگر موجودہ ہائی اسکولوں کی تعداد, 2 ہزار 200 اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبا کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو ان سے اضافی طلبا کے لیے گنجائش نکالنے کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ ہمارے پاس تعلیم کا سلسلہ بیچ میں چھوڑ دینے والے بچوں کا ایک بڑا مسئلہ موجود ہے۔ ہم اسکولوں کی تعداد میں اضافے کے بغیر کس طرح اضافی بچوں کے لیے مڈل اور ہائی سطح کی تعلیم کا انتظام کرسکتے ہیں؟ اگر ہم مڈل اور ہائی اسکول کے بچوں کا خیال رکھنے کے لیے چند پرائمری اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمیں اضافی اساتذہ اور اضافی کمروں کا بندوبست کرنا ہوگا۔
اسکول سے باہر موجود لاکھوں بچوں کو اگر ہم اسکولوں میں داخلہ دینے جا رہے ہیں تو اس کے لیے اسکولوں کے بنیادی ڈھانچوں میں اضافہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ بنیادی ڈھانچوں کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ وقت اور بھاری لاگت درکار ہوتی ہے۔ لیکن جب تک حکومت یہ محسوس نہیں کرلیتی کہ اس کے پاس اس لاگت کے لیے کافی وسائل موجود ہیں تب تک یہ آپشن زیادہ کارآمد نظر نہیں آتا۔
اگر پی ٹی آئی حکومت بچوں کے داخلوں کی شرح میں اضافے اور تعلیمی معیار میں بہتری کو لے کر کافی سنجیدہ ہے اور اگر وہ اخراجات کے لیے وسائل نہیں رکھتی تو اسے نئے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔
کیا پی ٹی آئی حکومت نجی شعبے اور نجی وسائل کو تعلیمی پھیلاؤ میں ہاتھ بٹانے کے لیے کسی طرح آمادہ کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ پاکستان میں منافع کے بغیر کام کرنے والا شعبہ چھوٹا ہے، لیکن پھر بھی یہ حکومت کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر تھوڑا بہت بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ منافع کے لیے کام کرنے والا شعبہ مناسب سالانہ شرح منافع پر راضی ہوجائے اور کہیں کہیں لاگت کا بوجھ اٹھائے۔
مگر ان مذکورہ 2 میں سے کسی ایک بھی بات پر عمل کرنے کے لیے حکومت کو نجی شعبے کی جانب اپنا رویہ کافی مثبت رکھنا ہوگا۔ اسے نجی شعبے کو یقین دلانا ہوگا کہ حکومت انہیں اور ان کے کام میں ہر طرح کی سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے پالیسی بیان (policy statements) بھی دیا جاسکتا ہے اور اسے نجی و سرکاری شراکت داری کے لیے عملی اقدامات اور نجی شعبے کو سہولیات کی فراہمی کے ذریعے تقویت پہنچانی ہوگی، اس کے علاوہ اسے نجی کاروباری اداروں کے جائز خدشات کو بھی دُور کرنا ہوگا۔
موجودہ وقت میں ہمیں ان میں سے کسی ایک بات پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے بجائے تعلیمی میدان میں نجی شعبے کے حوالے سے کوئی گفتگو ہوتی ہے تو اس دوران ضابطوں، منافع کے لیے بھاری فیسوں، یکسانیت تھوپنے جیسی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو اسکول میں داخلوں کی شرح میں اضافہ اور اسکولوں کے معیار میں بہتری قلیل مدت یا مستقبل قریب میں تو ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اور وہ نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے نئے طریقوں پر عمل کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتی۔ اگر حکومت اس مقصد کے لیے دیگر طریقوں پر غور کررہی ہے تو ہم انہیں ضرور جاننا چاہیں گے۔
یہ مضمون 25 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔