انور جلال شمزا: شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
انور جلال شمزا: شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں شہرِ لاہور کی رونقیں، یہاں کی آب و ہوا کھینچ کھینچ کے لاتی ہے مگر رزق کا تار کہیں اور بندھا ہوتا ہے۔ وہ اُدھر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں، وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں، جیسے کوئی بچہ اسکول جاتے ہوئے ایڑھیاں رگڑتا ہے، کیونکہ وہ گھر رہنا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح وہ بھی اپنے گھر رہنا چاہتے ہیں لیکن شہرِ لاہور، اس کی گلیاں کھینچتی ہیں مگر آسمان کی مہربانیاں تنگ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تب انہیں شہر چھوڑنا پڑتا ہے۔
وقت کا پٹہ گلے میں ڈالے چلنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے۔ انور جلال شمزا نے شہر کیا چھوڑنا تھا، ملک چھوڑ دیا۔ پاکستان سے جاتے وقت بھی وہ مشہور مصور تھے لیکن شہرت سے پیٹ کبھی نہیں بھرتا، جب باہر ملک آرٹ پڑھانے کے اچھے پیسے ملنے لگے اور اپنے ملک میں دھیلے کی نوکری نہ دکھائی دی تو ان کا واپس پلٹنا مشکل ہوتا گیا۔
ان کے برعکس زاہد ڈار نے شہرِ لاہور سے باہر قدم نہیں رکھا، وقت کا پٹہ، رزق کی کشش، سب سے دامن بچائے بیٹھے رہے۔ وہ اب بھی مطمئن ہیں، لیکن دنیاداروں کی نظر میں کامیابی اسے نہیں کہا جاسکتا کہ جو گزر بسر ان کی ہے۔ وہ بس شان بے نیازی اور ناکامی کے درمیان کی ایک منزل ہے۔ انہیں تو اب یہ اوپر والا شعر بھی کچھ خاص پسند نہیں۔ پرسوں ریڈنگز گیا تو ڈار صاحب حسبِ معمول اپنی کرسی پر بیٹھے تھے اور سامنے ناصر کاظمی کی 2 کتابیں رکھی تھیں۔
بعض اوقات یونہی بات چلانے کو بھی کوئی سوال کرنا پڑتا ہے تو پوچھا کہ ڈار صاحب کتنے عرصے بعد پڑھ رہے ہیں ناصر کاظمی کو؟ کہنے لگے ’یا تو اس وقت پڑھا تھا جب رسالوں میں چھپتا تھا، یعنی 1955ء اور 1956ء میں، کہ اُدھر کوئی نئی چیز چھپی اِدھر پڑھ لی، یا پھر اب پڑھ رہا ہوں، حساب لگا لو کتنا عرصہ ہوگیا‘۔
تھوڑی دیر چپ رہے، پھر کہنے لگے کہ ’یار اب تو بہت سے شعر پہلے جیسا مزہ ہی نہیں دیتے، جیسے یہ شعر ہے، کاغذ ڈھونڈ کے نکالا، ادھر لائن پر انگلی رکھی، کتاب میری طرف کردی، شعر یہی تھا، شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد/ تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو۔ کہا، پہلے تو یہ شعر ایسے مزے سے میں پڑھتا تھا، عجیب کیفیت ہوتی تھی، اب کچھ بھی نہیں ہوتا‘۔
قصہ یوں ہے کہ انتظار حسین، ناصر کاظمی، زاہد ڈار، احمد مشتاق، انور جلال شمزا یہ سب دوست تھے۔ یہ ساری پارٹی پاک ٹی ہاؤس والی تھی، اور وہ شعر سب کے پسندیدہ ترین شعروں میں تھا، اس کی فیلنگ ہر جوان دل کو پسند تھی۔ تو سب سے پہلے شمزا باہر گئے اور ان کے بعد احمد مشتاق بھی چلے گئے۔ جو باہر جاتا ہے وہ ہمیشہ اس ارادے سے جاتا ہے کہ یار آخر واپس وطن آنا ہے، اپنے گھر لوٹنا ہے، لیکن اسے پتہ نہیں ہوتا کہ ایک بار جو پاؤں باہر رکھا گیا وہ پھر مَر کے واپس آئے تو آئے، جیتے جی اس پاؤں کا واپس لوٹنا اور آباد ہوجانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔