دنیا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ طویل جنگوں سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، مائیک پومپیو

امریکی سیکریٹری خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ٹرمپ ضرورت پڑنے پر امریکی فوجی دستے تعینات کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔

واشنگٹن: امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکا اب ’’اسلامی دہشتگردی‘‘ سے نمٹنے کے لیے نئی پائیدار حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے اور چاہتا ہے کہ طویل عرصے سے جاری ان جنگوں سے دستبرداری اختیار کی جائے۔

سابق امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں سے مختلف نئی کثیر الجہت حکمت عملی کس طرح مختلف ہے کا جواب دیتے ہوئے سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو ان طویل ترین جنگوں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں جیسے کہ ایک جنگ 17 سال سے افغانستان میں جاری ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کی میزبان مارتھا میک کیلم کو انٹرویو دیتے ہوئے مائیک پومپیو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ صدر ٹرمپ ضرورت پڑنے پر امریکی فوجی دستے تعینات کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا پر غور کیا جارہا ہے، امریکی نائب صدر

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ہر معاملے کا جائزہ لے کر اس میں درست حکمت عملی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ لیں گے اور اگر کہیں امریکی فوج کی ضرورت پڑی تو ہم بھیجیں گے۔

مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی دنیا میں مذہبی دہشت گردی اب بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے بڑا خطرہ ہے لیکن صدر ٹرمپ کسی قسم کا فوری اور بغیر سوچے سمجھے اقدام نہیں چاہتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں انتہا پسند اسلامی دہشت گردی کے خطرے سے امریکیوں کو محفوظ کرنے کے لیے راہ تلاش کرنا ہوگی، اور ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس مقصد کے لیے سب سے بہتر اور پائیدار طریقہ کار کیا ہوگا۔

مزید پڑھیں: سابق امریکی کمانڈر کا افغانستان سے فوج کے انخلا پر خدشات کا اظہار

اس کے ساتھ امریکی سیکریٹری نے سابق امریکی سفارتکار بریٹ مک گرک کے اس بیان کو مسترد بھی کیا کہ ’امریکا کے افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کے معاملے پر روس اور ایران سے زیادہ کوئی خوش نہیں۔

خیال رہے کہ مک گرک اکتوبر 2015 میں داعش کے خلاف بنائے گئے عالمی اتحاد کے لیے خصوصی صدارتی نمائندے تھے، جنہوں نے گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ کے شام سے فوج واپس بلانے کے اعلان پر استعفیٰ دے دیا تھا۔


یہ خبر 25 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔