میڈیا ہاؤسز کو ’بزنس ماڈل‘ کی تبدیلی کا مشورہ کیوں؟
سوشل میڈیا پر صحافتی اداروں کی بندش اور ملازمین کو جبری برطرف کیے جانے کی مایوس کن خبریں جاری ہیں۔ عدم اطمینان اور تشویش کے سائے دیگر مستحکم صحافتی اداروں کے ملازمین پر بھی منڈلا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا بزنس ماڈل تشکیل دینے کا ’مشورہ‘ تابوت میں آخری کیل کے مترادف سمجھا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
یقیناً یہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ حکومت کو محسوس ہوگیا کہ محکمہ انفارمیشن میں اشتہارات کی بندر بانٹ سے چلنے والے ڈمی اخبارات کا قلع قمع کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کی پالیسی اپنانے کے بجائے اشتہارات ہی بند کردیے جائیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے محکمہ آڈٹ بیورو سرکولیشن (اے بی سی) کی ’کرپشن‘ کو بے نقاب کرنے کے بجائے پورے محکمے کو ہی ’بائے پاس‘ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ گزشتہ چند مہینے پہلے ہی احتساب بیورو کے اہلکار محکمہ انفارمیشن کے دفتر سے فائلوں کا پلندہ ساتھ لے گئے اور یقیناً وہ ابھی ڈمی اخبارات کو ’نوازنے‘ کا پیمانہ جانچ رہے ہوں گے۔
آزادی صحافت اور معلومات کی ترسیل
ممالک کی تخصیص کیے بغیر آزادی صحافت ہر دور اور ہر ملک میں مختلف چینلجز سے دوچار رہتی ہے کیونکہ ’اس کا تعلق نظریے، سوچ، زوایے اور تفریق‘ سے ہے، لہٰذا سوچ کا ٹکراؤ یقینی ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحافت کا معیار پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں بہرحال بہت بہتر ہے لیکن ملک میں آزادی صحافت کو سینسر شپ کے علاوہ بڑا خطرہ ’جانبدارخبروں‘ سے ہے اور جب تک اخبار کے مالک کو چینل کھولنے اور چینل کے مالک کو اخبار شائع کرنے کی اجازت واپس نہ لے لی جائے، یعنی معلومات کی تقسیم کے ذرائع پر کسی ایک ادارے یا فرد کی ملکیت کو ختم نہ کردیا جائے۔
پاکستان سمیت متعدد ممالک میں Cross-media Ownership پر پابندی ہے یعنی ایک شخص یا ادارہ ایک سے زائد میڈیا ہاؤس کا مالک نہیں ہوسکتا۔ اخبار کا مالک صرف اخبار نکالے گا لیکن پاکستان میں اخبار کا مالک اپنے کسی عزیز یا راشتے دار کے نام پر چینل کا لائسنس لے کر ’قانون سے کِھلواڑ‘ کرتا ہے، جسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کمزوری کو قانون اور احتساب اداروں کی نااہلی قرار دیا جاسکتا ہے۔
بطورِ طالبعلم میرا استدلال ہے کہ ’اشتہارات کی مد میں کرپشن کا سلسلہ محکمہ ’اے بی سی‘ سے شروع ہوتا ہے۔ سندھ میں ہزاروں ڈمی اردو اور سندھی اخبارات کے پاس محکمہ ’اے بی سی‘ کا سرٹیکفیٹ موجود ہے جس پر ان کی سرکولیشن 50 ہزار سے 1 لاکھ درج ہیں تاہم مارکیٹ میں اس کی کاپیاں محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں۔ لیکن ہاں، اگر مستقبل میں سرکاری اشتہارات کو محدود کیا گیا تو ان ’ڈمی اخبارات‘ کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔
نیوز ویب سائٹ / ویب ٹی وی
معلومات یا خبروں کی ترسیل کا عمل روایتی ڈگر سے ہٹ کر مغربی طرز اپنائے گا۔ پاکستان میں متعدد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں میڈیا ہاؤسز اپنی نیوز ویب سائٹ (ویب ٹی وی) متعارف کرانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، بڑی تعداد میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے خبروں یا تبصروں سے اپنی تسلی حاصل کرتے ہیں۔
سبسکرپشن
میڈیا کا مقبول عام ذریعہ
ابھی کیا ہورہا ہے؟
حالات اسی طرح رہے تو صورتحال آنے والے سالوں میں کیسی ہوسکتی ہے؟
- یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بدولت بزنس سمٹ کر اسمارٹ موبائل فون پر آگیا ہے۔ سرکاری اشتہارات کی عدم فراہمی کے نتیجے میں پہلے تو وہ تمام نام نہاد صحافتی ادارے جو سرکاری اشتہارات یا ’سیاسی اثر و رسوخ‘ کی وجہ سے صحافت کی آڑ میں اپنے ’امور سیدھے‘ کرنے میں مصروف تھے، گمنام ہوجائیں گے کیونکہ اچھا کام کرنا تو دُور کی بات، ان کے بس میں تو کام کرنا بھی نہیں ہے.
- اس ضمن میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ اخبارات، چینل اور نیوز ویب سائٹ ’دقیانوسی موضوعات‘ سے کنارہ کشی اختیار کرکے ’منفرد و متنوع موضوعات‘ زیرِ بحث لائیں گے جس کا معیار اور مقدار دونوں ہی قابلِ ستائش ہوگا۔
- شخصی صحافت کا سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد اختتام پذیر ہوا اور ساتھ ہی عالمگیریت کے سائے میں صحافتی صنعت درجہ اختیار کرگئی۔ پاکستان میں گزشتہ 20 برس کے دوران صحافتی ادارے مجموعی طور پر ’معاشی اعتبار‘ سے مستحکم ہوئے لیکن صحافت اور صحافی ملازمین کے حالات درگرگوں ہی رہے۔ ملک میں آزادی صحافت کی بقاء کے لیے میڈیا ہاؤس مالکان سمیت صحافیوں نے ہر فورم پر آواز اٹھائی لیکن صحافیوں کو حاصل آئین کی رُو سے ملنے والے حقوق ہمیشہ ’غیر اہم موضوعات‘ رہے۔ بشمول صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیوں کی جانب سے کوئی قابل ذکر تحریک نظر نہیں آتی۔
- مجموعی صورتحال کے نتیجے میں صحافتی ادارے اگلے ایک سے دو برس میں ’مالی بحران‘ کی وجہ سے کئی سو ملازمین کو برطرف کردیں گے اور صرف وہ ہی صحافی اور دیگر ملازمین ادارے کا حصہ رہیں گے جو ’ہر فن مولا‘ ہوں گے۔ لیکن فری لانس صحافی، لکھاری، وی بلاگر کی اہمیت بڑھ جائے گی۔