میڈیا ہاؤسز کو ’بزنس ماڈل‘ کی تبدیلی کا مشورہ کیوں؟
سوشل میڈیا پر صحافتی اداروں کی بندش اور ملازمین کو جبری برطرف کیے جانے کی مایوس کن خبریں جاری ہیں۔ عدم اطمینان اور تشویش کے سائے دیگر مستحکم صحافتی اداروں کے ملازمین پر بھی منڈلا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنا بزنس ماڈل تشکیل دینے کا ’مشورہ‘ تابوت میں آخری کیل کے مترادف سمجھا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
یقیناً یہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ حکومت کو محسوس ہوگیا کہ محکمہ انفارمیشن میں اشتہارات کی بندر بانٹ سے چلنے والے ڈمی اخبارات کا قلع قمع کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کی پالیسی اپنانے کے بجائے اشتہارات ہی بند کردیے جائیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے محکمہ آڈٹ بیورو سرکولیشن (اے بی سی) کی ’کرپشن‘ کو بے نقاب کرنے کے بجائے پورے محکمے کو ہی ’بائے پاس‘ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ گزشتہ چند مہینے پہلے ہی احتساب بیورو کے اہلکار محکمہ انفارمیشن کے دفتر سے فائلوں کا پلندہ ساتھ لے گئے اور یقیناً وہ ابھی ڈمی اخبارات کو ’نوازنے‘ کا پیمانہ جانچ رہے ہوں گے۔