پاکستان

گارمنٹس انڈسٹری میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں، رپورٹ

ڈیڑھ کروڑ مزدور انتہائی بری حالت میں کام کررہے ہیں، تشدد،جنسی ہراساں اور واش روم کا وقفہ تک دیا نہیں جاتا، ایچ آر ڈبلیو

کراچی: انسانی حقوق کے رضاکار کا کہنا ہے کہ گارمنٹ انڈسٹری میں لاکھوں مزدوروں کو روز مرہ کے تشدد جیسے جنسی ہراساں، واش روم کا وقفہ نہ دینا وغیرہ کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کے نگہداشت ادارے ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی رپوٹ میں بتایا گیا کہ خطرناک آتشزدگی اور احتجاج کے بعد کئی اصلاحات کی گئیں تاہم ملک میں ایک کروڑ 50 لاکھ گارمنٹس انڈسٹری سے وابستہ مزدور اب بھی انتہائی بری حالت میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں ایک جگہ اکٹھے ہونے پر بھی دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت ملک میں گارمنٹ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کو عرصہ دراز سے نظر انداز کرتی آرہی ہے‘۔

2012 میں ایک فیکٹری میں لگنے والی آگ جس کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے کے واقعے کے پیش نظر نئی تحقیق میں اسی شعبے پر آج مزدوروں کی حالت پر نظر ڈالی گئی۔

مزید پڑھیں: حکومت کی اولین ترجیحات میں انسانی حقوق کو شامل کیا جائے، ہیومن رائٹس واچ

ایچ آر ڈبلیو نے تقریباً 140 افراد کا انٹرویو کیا جس میں انہیں معلوم ہوا کہ انہیں جبری طور پر مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، انہیں روز کا معاوضہ دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ زچگی کی رخصت، کام کرنے کا وقت کم دیا جانا، بدکلامی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

ملک کے دو بڑی ٹیکسٹائل اور گارمنٹ انڈسٹری ایسوسی ایشن نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ غیر ملکی کمپنیاں ایسی فیکٹریوں سے کام لینا چھوڑ دیتی ہیں جو مزدوروں کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ حامد طفیل خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے رکن دنیا کی چند بہترین برانڈز کے لیے کام کرتے ہیں اور وہ ملکی و عالمی ضابطوں کے تحت کام کرتے ہیں۔

واش روم کے وقفے کے حوالے سے پاکستان ریڈی میڈگارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ مبشر نصیر بٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ وہاں ایک گھنٹہ لگائیں گے تو یہ قابل قبول نہیں‘۔

ملک کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل حب، سندھ میں اعلیٰ مزدور حکام کا کہنا تھا کہ اس کام کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

عبدالرشید سولنگی کا کہنا تھا کہ ’اگر مزدور خوش نہیں ہوں تو وہ کام پر ہی نہیں جاتے ہیں‘۔

ایچ آر ڈبلیو کو تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر مزدوروں کے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں جو ان کے مطابق عالمی معیار کے سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی تحقیق کے دوران ان کے سامنے چند بچوں سے مزدوری کروانے اور گارمنٹ کی صنعت میں مزدوروں کی 30 فیصد تعداد رکھنے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے کیسز بھی سامنے آئے۔

رپورٹ میں گارمنٹ انڈسٹری میں کام کرنے والی فائزہ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی خاتون واش روم کا وقفہ مانگتی ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ کیا اس کے ایام حیض چل رہے ہیں، یہ انتہائی شرمناک ہے‘۔

مزدوروں کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ ’قانون پر عمل در آمد نہ ہونا، نوکری سے نکالے جانے کا ڈر اور خاتون انسپکٹرز کی کمی کی وجہ سے خواتین جنسی ہراساں کے واقعات رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔

چند فیکٹریوں میں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہوتا اور بیمار پڑجانے یا حاملہ مزدور خواتین کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے اور زائد وقت کام نہ کرنے یا استعفیٰ نہ دینے والے مزدوروں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے حکومت سے اپنے لیبر قوانین کو عالمی معیار کے مطابق مزید مستحکم بنانے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں: ’کم از کم تنخواہ 30 ہزار اور پینشن 15 ہزار روپے مقرر کی جائے‘

اقوام متحدہ کے مزدوروں کے عالمی ادارے کی ڈائریکٹر برائے پاکستان انگرڈ کرسٹین سین کا کہنا تھا کہ ’مزدوروں کے حقوق انہیں نہ دیے جانے سے صنعتی تضاد پیدا ہوگا جو بدترین صورتحال اختیار کرتے ہوئے شہری و سیاسی عدم استحکام کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 2017 میں ایک معروف کپڑوں کے برانڈ کی جانب سے بہتر حالت کا مطالبہ کرنے والے 32 مزدوروں کو نکالنے پر احتجاج سامنے آیا تھا جس نے ملک میں بے چینی کی صورتحال پیدا کردی تھی۔

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا تھا کہ ایسے حالات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اگر مزدوروں کی یونین میں بہتر نمائندگی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یونین قائم کرنے کے لیے قوانین میں ترمیم کیے جانے کے باوجود فیکٹریاں ایسی کوششوں کی مزاحمت کرتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر رہتا ہے کہ یہ ان کے بڑے نقصان کا سبب بنیں گی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 جنوری 2019 کو شائع ہوئی