نقطہ نظر

کراچی جو اِک شہر تھا (نواں حصہ)

شہر میں چلنے والی سرکش منی بسوں اور ان کےبدتمیزوبدمعاش ڈرائیوروں نےبالآخر کراچی کو بدامنی کے شعلوں میں دھکیل کرہی دم لیا

یہ اس سیریز کا نواں بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا، ساتواں اور آٹھواں حصہ پڑھیں۔


اس دور میں ریڈیو اور ٹی وی کی حکمرانی تھی۔ اچھے ریڈیو اور ٹی وی رکھنے والے گھر کا محلے بھر میں رعب ہوتا تھا۔ ٹی وی اور ریڈیو سیٹ کے لیے کپڑے کے خوبصورت گرد پوش تیار کئے جاتے تھے۔ بڑے ریڈیو کے ساتھ ساتھ پاکٹ ریڈیو کا بھی فیشن آیا جو عام طور پر کرکٹ کمنٹری سننے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ میچ کے دنوں میں جسے دیکھو ریڈیو سے کان لگائے چلا جا رہا ہے۔ راہ چلتے لوگ اسے روک روک کر اسکور پوچھ رہے ہیں اور وہ خندہ پیشانی سے ہر ایک کو اسکور بتاتا جا رہا ہے۔

لڑکوں کا الیکٹرونکس میں دلچسپی کا آغاز عام طور سے اسی ریڈیو کی وجہ سے ہوتا تھا۔ پاکٹ ریڈیو عموماً 100 روپے کا مل جاتا تھا، لیکن شوقین لڑکے خود بھی چھوٹے چھوٹے الیکٹرونک سرکٹ جوڑ کرایک ڈبیا میں ریڈیو بنا لیتے اور پھر اس عجیب سے ریڈیو کو فخر کے ساتھ اپنے دوستوں کو چلا کر دکھاتے اور انہیں بتاتے کہ ’ابے یہ صرف 10 روپے میں تیار ہوا ہے‘۔

نیشنل پاکٹ ریڈیو

ریڈیو بنانے کا یہ شوق لڑکوں کو الیکٹرونکس کی وسیع دنیا میں دھکیل دیتا اور ان میں سے کئی لڑکے مستقبل کے ماہر الیکٹرونکس انجینئر بننے کی راہ پر گامزن ہوجاتے۔

ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کی اس قدر اہمیت تھی کہ حج، عمرے یا غیر ملکی سفر سے جو بھی واپس آتا تو وہ یہ اشیا اپنے ساتھ ضرور لاتا۔ ابا بھی جب حج پر گئے تو واپسی پر آب زم زم، جائے نماز اور کھجوروں کے ساتھ ساتھ جہاں کمبل، چائے کے پریس این پور Press-n-Pour تھرماس اور مکے مدینے کی تھری ڈی تصویروں والے ویو ماسٹر لائے، وہیں نیشنل کے 2 عدد ٹیپ ریکارڈر بھی لائے۔

ان چیزوں نے ہمارے لئے دلچسپی کی نئی دنیا کے راستے کھولے، خصوصاً ٹیپ ریکارڈر نے تو ہماری نیندیں اڑا دیں۔ بھائی اپنے دوستوں سے معروف گلوکاروں کے کیسٹ لے کر آتے، احمد رشدی، مہدی حسن، مسعود رانا، رونا لیلیٰ، مالا، رفیع، لتا اور کشور کے سدا بہار اور منچلے گانے ہمیں کسی اور دنیا میں لے جاتے، ایک ایسی دنیا کہ جس میں جانے کا رستہ ہم نے ابّا سے چھپایا ہوا تھا۔

بھائی جہاں دوستوں سے یہ گانوں بھرے کیسٹ لاتے، وہیں جاپانی کمپنی ’ٹی ڈی کے‘ (TDK) کے ایک گھنٹے والے خالی کیسٹ بھی لاتے۔ پھر ایک بند اور بے آواز کمرے میں بیٹھ کر 2 ٹیپ ریکارڈرز میں سے ایک میں کوئی پسندیدہ گانا چلایا جاتا اور دوسرے ٹیپ ریکارڈر کو اس کے سامنے رکھ کر خالی کیسٹ ڈال کر اس کا ریکارڈنگ والا بٹن دبا دیا جاتا۔ یوں ہم نے اپنی پسند کے گانوں والے کئی البم تیار کیے۔ کیسٹ کی ریل کبھی کبھی ٹیپ ریکارڈر کے ہیڈ میں پھنس بھی جاتی تھی، چنانچہ اس کو وہاں سے نکالنا اور پٹی کو دوبارہ کیسٹ کی ریل پر لپیٹ لینا بھی ایک اہم کام ہوتا تھا۔

میں نہ صرف اس کا بھی ماہر ہوگیا تھا بلکہ مجھے پورا کیسٹ کھول کر اسے دوبارہ بند کرنا بھی آگیا تھا۔ ایک دن ہمارے اس ’ریکارڈنگ اسٹوڈیو‘ پر ابّا نے چھاپا مارا اور ہمیں یہ فضول کام کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ دونوں بھائیوں کو خوب تھپڑ پڑے اور ایک ٹیپ ریکارڈر ابّا اٹھا کر دکان لے گئے۔ ابّا چونکہ حافظِ قرآن تھے لہٰذا رمضان میں تراویح پڑھانے کی تیاری کے لیے وہ اپنی تلاوت اس پر ریکارڈ کرتے اور پھر اسے سن کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے تھے۔

ان ٹیپ ریکارڈرز کے علاوہ ایک اور چیز جو ابّا حج سے اپنے ساتھ لائے، وہ ویو ماسٹر View Master تھی۔ مکے مدینے کی تصویروں والے تھری ڈی 3D ویو ماسٹر۔ یہ ایک دوربین نما کھلونا تھا کہ جس میں رنگین تصویروں والی سلائڈز پر مشتمل ریلیں ڈال کر اور پھر اس سے آنکھیں لگا کر دیکھا جاتا تو سامنے ایک ایسی جیتی جاگتی تھری ڈائمنشنل رنگین تصویر نظر آتی کی جس میں ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر الگ الگ دکھائی دیتی اور ہمیں یوں لگتا کہ ہم صرف ایک قدم بڑھا کر اس دنیا میں داخل ہوسکتے ہیں۔

3D ویو ماسٹر

یہ تھری ڈی تصویریں عام طور پر 3 ریلوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ ہر ریل میں 7 تصویریں ہوتی تھیں، یعنی ٹوٹل 21 تصویریں۔ ایک دن بولٹن مارکیٹ کے ایک فٹ پاتھی اسٹال پر مجھے یہ ریلیں رکھی نظر آئیں، لیکن یہ صرف مکے مدینے کی نہیں تھیں، بلکہ دوسرے ملکوں کی بھی تھیں۔ یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں اور شہروں کی تھری ڈی تصاویر۔ میری تو باچھیں ہی کھل گئیں۔

میں نے ان تصویروں کا جو سب سے پہلا سیٹ خریدا وہ ترکی کے شہر ’استنبول‘ کی رنگین تھری ڈی تصاویر پر مشتمل تھا۔ پھر میں نے وقتاً فوقتاً مزید کئی ملکوں کے بھی سیٹ خرید کر اپنے اس تھری ڈی ذخیرے میں اضافہ کیا۔ میرے دل میں دنیا کی سیاحت کا شوق بیدار کرنے میں ان تصاویر نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ خصوصاً ترکی اور استنبول کی تصاویر نے اس قدر بے چین کیا کہ جب کئی سال بعد مجھے بیرون ملک سیاحت کا موقع ملا، تو میں نے زندگی کا پہلا غیر ملکی ہوائی سفر استنبول ہی کے لیے کیا۔ ویسے تو میں اس وقت تک ترکی کے بارے میں کئی سفرنامے پڑھ چکا تھا، لیکن جو شوقِ طلب ان تھری ڈی تصاویر نے پیدا کیا، وہ ان کتابوں سے کہیں زیادہ تھا۔ میں حیران ہوں کہ آج مجھے اپنے اردگرد وہ تھری ڈی ویو ماسٹر اور ان کے تصویری سیٹ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔

بولٹن مارکیٹ اور کھوڑی گارڈن کی ان فٹ پاتھی دکانوں پر ویو ماسٹر ریلوں کو تلاش کرتے کرتے ایک مرتبہ مجھے اسی طرح کی ایک اور چیز بھی نظر آئی۔ یہ تھی ’مِنی مووی Mini Movie‘، ایک چھوٹا سا کھلونا نما فلم پروجیکٹر کہ جس میں چند منٹ کی کارٹون فلم ریل ایک اسکرین پر پروجیکٹ ہوکر سنیما کی طرح چلتی تھی۔

منی مووی

میں نے فوراً ہی یہ پروجیکٹر خرید لیا اور گھر آکر اسے گتے کے ایک بڑے سے کارٹن کی ایک سائڈ میں فٹ کیا اور کارٹن کے اندر دوسری طرف والی دیوار پر ایک سفید کاغذ چپکا دیا۔ یوں یہ ڈبا ایک چھوٹا سا سنیما بن گیا۔ کارٹن کو بند کرنے سے اس میں اندھیرا ہوگیا اور میں نے اس کی سائیڈوں میں چار چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں کھول دیں۔ پروجیکٹر کو آن کرتے ہی بند کارٹن کے اندھیرے میں سفید کاغذ پر بالکل ایک سنیما کی طرح فلم چلنا شروع ہوگئی جو سائیڈ والے سوراخوں پر آنکھ جمانے سے زبردست نظر آتی۔ محلے کے بچوں کو جب اس منی سنیما کی خبر لگی تو میرے گھر پر ان کی یلغار ہوگئی۔ میں نے یہ موقع غنیمت جانا اور اس فلم شو کا ٹکٹ لگا دیا، وہ بھی چار آنے یعنی 25 پیسے۔ بس پھر کیا تھا، بچوں نے تو چونّی کے سکوں کا ایک ڈھیر لگا دیا۔

اب مجھے ہری ہری سوجھنے لگی۔ ہماری گلی کے نکڑ پر ہی گورنمنٹ کا پرائمری اسکول تھا۔ میں نے ایک دن اپنا پروجیکٹر اٹھایا اور اسے اسکول کے میدان میں لے جاکر رکھ دیا۔ جیسے ہی ہاف ٹائم ہوا، بچے چیختے چلاتے اپنی کلاسوں سے باہر نکلے اور میرے منی سنیما پر ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اس دن میں 25 پیسے والے سکے جمع کرتے کرتے تھک گیا۔

اس اسکول میں مختلف ٹھیلوں اور خوانچوں والے بھی اپنی اپنی چیزیں بیچنے کے لیے آتے تھے، لیکن اس دن میرے منی سنیما کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ ہاف ٹائم ختم ہونے تک کئی فلم شو چلا کر میں سکّوں کا ایک ڈھیر جیب میں لیے فاتحانہ گھر لوٹ آیا۔ بیچارے خوانچہ فروش تو پریشان ہوگئے کیونکہ اگلے 3 سے 4 دن تک تو یہ تماشا چلتا رہا، پھر ایک دن مجبور ہوکر رفیق چھولے والا شکایت لے کر ہمارے گھر پہنچ گیا۔ اس نے امّی سے کہا:

’خالہ اپنے لاڈلے کو سمجھائیں، اس نے تو ہمارا بھٹہ ہی بٹھا دیا ہے۔‘

میرا شغل میلہ ان کے روزگار کا درپے ہوگیا تھا۔ امّی نے مجھے بلا کر رفیق چھولے والے کے سامنے ہی خوب ڈانٹا، چنانچہ اس دن سے میرا یہ منی سنیما بند ہوگیا۔

80ء کی دہائی کے شروع میں اچانک وی سی آر VCR آیا اور ہر طرف چھا گیا۔ وی سی آر پر رات رات بھر بیٹھ کر گروپوں کی شکل میں بھارتی فلمیں دیکھنے کی لت عام ہوگئی۔ اس وقت وی سی آر بھی عجیب خلائی مشین قسم کا ہوتا تھا۔ بٹن دباتے ہی اس کے اوپر والے حصے میں کھٹاک کی آواز کے ساتھ ایک کھڑکی کھلتی اور اوپر اٹھ کر کھڑی ہوجاتی۔ اس کھڑکی میں جو ویڈیو کیسٹ فٹ ہوتی وہ ایک گھنٹے کی ہوتی تھی۔ اب فلمیں چونکہ 3 گھنٹے کی ہوتی تھیں اس لیے ایک فلم کے لیے 3 کیسٹ بدلے جاتے۔

وہ جنرل ضیا الحق کا دور تھا اور بھارتی فلموں پر پابندی تھی، اس لیے یہ فلم بینی چھپ چھپا کر کی جاتی۔ پھر یہ وبا عام ہوگئی اور کراچی کی گلیوں میں ’لِیڈ سسٹم‘ آگیا۔ تقریباً ہر گلی میں انٹینا کی چپٹی تاروں کا ایک جال پھیلا رہتا کہ جو ایک گھر میں سے برآمد ہوکر گھر گھر جاتا۔ پہلے گھر میں رکھے ہوئے وی سی آر پر فلم چلتی اور جن لوگوں نے پیسے دے کر اس لیڈ سسٹم کا کنکشن لیا ہوتا، وہ مزے سے اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے اپنے ٹی وی پر رات رات بھر فلمیں دیکھتے۔

وی سی آر

ٹاپ لوڈنگ وی سی آر

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوئی اونچی گاڑی اچانک کسی گلی میں داخل ہوتی تو بے خبری میں ان لٹکتی لیڈوں کو گھسیٹتی چلی جاتی اور ان تاروں سے منسلک گھروں میں رکھے وی سی آر اور ٹی وی ٹیبلوں سے گھسٹ کر زمین پر گر پڑتے۔ گلی میں ایک بھونچال سا مچ جاتا۔ لوگ ہڑبڑا کر گھروں سے باہر نکل آتے اور گاڑی والے کو خوب گالیاں پڑتیں۔ پھر رفتہ رفتہ ہر گھر میں وی سی آر آگیا اور لیڈ سسٹم بھی ختم ہوگیا۔ لیکن بالآخر وہ وقت بھی آیا کہ وی سی آر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔

انٹرمیڈیٹ کا دوسرا سال شروع ہوگیا، مگر اس کلاس کی خاص اور پریشان کن بات یہ تھی کہ اب ہماری فزکس کی کلاس پروفیسر سرور حسین زبیری کے حوالے کردی گئی تھی۔ کراچی کے معروف استاد اور علی گڑھ کے گریجویٹ سرور زبیری صاحب اس وقت نہ صرف یہ کہ ڈی جے کالج کے پرنسپل تھے، بلکہ سیکنڈ ایئر میں پڑھائی جانے والی سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی ’فزکس‘ کے کئی چیپٹر بھی سرور زبیری صاحب ہی کے تحریر کردہ تھے۔

ایک تو ان کی قد آور شخصیت کا رعب بہت تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کی کلاس صبح سویرے 8 بجے ہی بروقت شروع ہوجاتی تھی۔ اب ہم جیسے دُور دُور سے، 2، 2 بسیں بدل کر کالج آنے والوں کے لیے تو صبح 8 بجے کلاس میں پہنچنا بڑا دشوار تھا، چنانچہ مجھے کچھ ہی دن میں زبیری صاحب نے بلیک لسٹ کردیا۔

دوسری طرف کراچی میں ٹرانسپورٹ کی صورت حال بھی بہت ابتر تھی۔ سرکاری بسوں کی حالت دن بدن مخدوش ہوتی چلی جا رہی تھی۔چھوٹی بیڈ فورڈ ویگنیں غائب ہوتی جا رہی تھیں اور ان کی جگہ مزدا کی منی بسیں لے رہی تھیں، لیکن خدا جانے کیوں ان منی بسوں کے زیادہ تر ڈرائیور اور کنڈیکٹر بدتمیز، جھگڑالو اور بے ایمان تھے۔ یہ نہ صرف گاڑی بہت بیہودہ طریقے سے چلاتے بلکہ بس اسٹاپوں پر بھی دیر دیر تک بلاوجہ کھڑے رہتے۔ جہاں تیز چلانا ہوتا وہاں رینگ رینگ کر چلتے اور جہاں احتیاط سے چلنا ہوتا وہاں تیز بھگاتے۔ اکثر راہگیروں، سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں پر چڑھ دوڑتے اور دلخراش حادثات کا باعث بنتے۔

منی بسوں کے ان اُجڈ کنڈہکٹروں، ڈرائیوروں اور کراچی کے مسافروں کے درمیان جھگڑے دن بدن بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ کبھی گاڑی آہستہ چلانے پر، بس اسٹاپ پر دیر دیر تک رکنے پر، گاڑی بغیر اسٹاپ روکنے پر، ٹکٹ کی بقایا رقم واپس نہ کرنے پر، کرایہ بڑھا دینے اور راہگیروں پر گاڑی چڑھادینے پر۔ غرض اس غیر مہذب غیر سرکاری ٹرانسپورٹ نے کراچی کے مستقبل پر بڑے ستم ڈھائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خونخوار عفریت نے شہر کی پُرامن فضا کو اپنی منحوس لپیٹ میں لے لیا۔

ڈی جے کالج کراچی کے ان اکا دکا کالجوں میں شامل تھا کہ جہاں کلاسیں باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوا کرتی تھیں اور استاد پڑھاتے بھی تھے، جبکہ دوسری طرف کراچی کے اکثر کالجوں میں پڑھانے کا رواج ختم ہی ہوتا جا رہا تھا۔ کلاسیں نہ ہونے کے برابر ہوتیں اور ٹیچر صرف حاضری لگانے یا اسٹاف روم میں بیٹھ کر گپیں لگانے کے لیے کالج تشریف لاتے۔

طلب علموں کی تمام تر استعداد کا تعلق کوچنگ سینٹرز، ٹیوشن، گیس پیپرز یا گزشتہ 5 سال کے پرچہ جات میں دیئے گئے سوالات کے گرد گھومنے والی تعلیم سے ہی رہ گیا تھا۔ کوچنگ سینٹرز کی تعداد اور ترقی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ کالجوں پر مردنی چھائی رہتی اور کوچنگ سینٹرز کی گہما گہمی دیکھنے سے تعلق رکھتی۔ ہم نے بھی اس رجحان کو دیکھتے ہوئے کوچنگ سینٹرز کی طرف رخ کیا۔

کالج میں رہتے ہوئے جو پڑھائی سوہانِ روح بنی رہتی تھی، وہ کوچنگ سینٹرز کے اندر طرح طرح کے گیس پیپرز اور شارٹ کٹ طریقوں کے باعث مکھن ملائی محسوس ہونے لگی۔ کوچنگ سینٹرز کے استاد نہ صرف پڑھانے میں مہارت رکھتے بلکہ جلد ہی بے تکلف دوست بھی بن جاتے۔ وہ نہ صرف امتحان کی تیاری میں مدد دیتے بلکہ ایجوکیشن کے علاوہ طلبہ کے دیگر مسائل اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی مددگار ثابت ہوتے۔ یوں کراچی کا طالب علم رفتہ رفتہ اپنے تعلیمی ادارے سے دُور اور کوچنگ سینٹر سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کا مقصد حصولِ علم نہیں رہا، بلکہ صرف امتحان میں اچھے نمبر لانا رہ گیا۔

سیکنڈ ایئر کے آخر میں ڈی جے کالج میں ہفتہءِ طلبہ منعقد ہوا۔ ایک ہفتے کی یہ رنگا رنگ اور دلچسپ تقریبات میرے لیے بڑی ہیجان خیز تھیں۔ ہفتہءِ طلبہ میں اسپورٹس ڈے، مباحثہ، مشاعرہ اور تقریری مقابلے ہوئے۔ اسپورٹس ڈے میں اس وقت کے وزیرِ تعلیم غوث علی شاہ آئے۔ مباحثے کا عنوان ’ہم سب پاکستان کے قاتل ہیں؟‘ تھا جس کی صدارت کے لیے روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر سید صلاح الدین تشریف لائے۔ مشاعرہ ’فرصتِ زندگی بہت کم ہے‘ کے عنوان سے ہوا اور مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ ’داد‘ کیا ہوتی ہے اور ’ہوٹنگ‘ کسے کہتے ہیں۔ ’واہ واہُ، ’سبحان اللہ‘ اور اور ’کیا کہنے‘ کے نعرے پہلی مرتبہ سنے۔ تقریری مقابلے کے عنوانات تھے:

اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان موضوعات پر طلبہ کی دھواں دار تقریروں کے دوران کیسا لونڈھیار پن مچا ہوگا!

سید صلاح الدین

1983ء کا رمضان آگیا اور وہ رمضان جون کے مہینے میں تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ ہم جہاں رہتے تھے وہ علاقہ ملیر ندی کے قریب تھا۔ اس برساتی ندی کے اطراف میں بے شمار باغات، کھیت اور کھلیان تھے جہاں عام طور پر قرب و جوار میں رہنے والے بلوچ کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ شہرِ کراچی کی پھلوں اور سبزیوں کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ ملیر کے یہ باغات پورا کرتے تھے۔ امرود، پپیتا، چیکو، شریفہ، املی، آملہ، جنگل جلیبی، ٹماٹر، لوکی، بینگن، گوبھی، توری، دھنیا، پودینہ، پالک، گاجر، مولی اور نہ جانے کیا کیا۔

یہ ساری کی ساری باغبانی ٹیوب ویلوں اور کنویں کے پانی سے ہوتی تھی۔ گھنے درختوں میں گھرے ہوئے ٹیوب ویل کے صاف شفاف ٹھنڈے پانی کا پُرزور دھارا پہلے ایک بڑے سے پختہ حوض میں گرتا اور پھر مٹی کی نالیوں میں بہتا ہوا کھیت کے گوشے گوشے میں پہنچتا۔ وہ امن و امان اور بے خوفی کا دور تھا۔ جون کی اس گرمی میں روزے کی شدت کو کم کرنے کے لیے میرے اکثر دوست ظہر کی نماز کے بعد بلوچوں کے ان باغات کا رخ کرتے اور وہاں کئی کئی گھنٹے ٹیوب ویلوں کے ٹھنڈے پانیوں میں نہاتے رہتے۔ یوں روزے کی پیاس کا بھی سدِباب ہوتا اور دوستوں کے ساتھ دلچسپ گپ بازیوں کے بھی طویل دور چلتے۔

سحری، افطاری، باجماعت نمازیں اور تراویح، 1983ء تک یہ چیزیں میرے لئے ماہِ رمضان کی علامات تھیں، لیکن اس سال مجھے اس ماہِ مبارک کی ایک اور خصوصیت کا پتہ چلا اور وہ تھی 'دعوتِ افطار'۔ اس رمضان میں مجھے شہر کے کئی علاقوں سے افطار کی دعوتیں ملیں، کچھ دوستوں کی جانب سے اور کچھ مجھ سے ٹیوشن پڑھنے والے طالب علموں کی طرف سے۔ انہی دنوں ہمارے محلے میں معروف مدرس شاہ بلیغ الدین کا بھی پروگرام ہوا۔ شاہ بلیغ الدین ریڈیو پاکستان کراچی سے پروگرام 'روشنی' پیش کیا کرتے تھے جو اس زمانے میں بہت مقبول تھا اور لوگ وقت نکال کر اسے سنا کرتے تھے۔ ہماری مسجد میں تبلیغی جماعت کا وفد بھی اکثر آکر قیام کرتا تھا۔ ان کے سہ روزہ قیام کے دوران مسجد میں بڑی رونق رہتی تھی۔ میں کئی مرتبہ ان کی 'تعلیم' میں شریک ہوا اور محلے میں ڈور ٹُو ڈور 'گشت' لگا کر لوگوں کو 'ایمان و یقین' کی دعوت بھی پیش کی۔

ڈی جے کالج میں بھی کئی مظاہرے ہوئے اور بار بار کلاسوں کا بائیکاٹ ہوا، لیکن پڑھائی کسی نہ کسی طور چلتی رہی۔ ہم دن میں کالج اور کوچنگ سینٹروں کے چکر لگاتے اور رات رات بھر جاگ جاگ کر میتھ، فزکس اور کیمسٹری سے سر ٹکراتے رہتے۔ غیر اطمینان بخش پڑھائی، اچھی ٹیوشن کا نہ ہونا، بسوں میں وقت کا ضیاع، نئی جوانیاں اور عشق و محبت کے بھوت، امتحانوں کا خوف اور دیگر طرح طرح کی ٹینشن، لیکن ان سب مصائب کے باوجود میں نے پیپر اچھے دیے اور انٹرمیڈیٹ بھی A گریڈ کے ساتھ پاس کر لیا۔

کراچی میں پری انجنیئرنگ کے طلبہ کی معراج این ای ڈی انجنیئرنگ یونیورسٹی تک پہنچنا ہوتی ہے۔ مجھے تو اپنی وہ منزل صاف نظرآ رہی تھی۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں ان دنوں 68 فیصد نمبر والوں کو بھی داخلہ مل جاتا تھا، جبکہ میری پرسنٹیج 73 فیصد تھی، چنانچہ وہ میرے اطمینان کے دن تھے۔ یونیورسٹی میں داخلے میں ابھی کئی مہینے باقی تھے، لہٰذا عیاشی تھی۔

80ء کی دہائی میں این ای ڈی یونیورسٹی—تصویر عبیداللہ کیہر

ایک دن میں نے ایک دوست کی موٹر سائیکل چلانے کی کوشش کی اور کامیاب رہا، لیکن ابھی موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے نہیں تھے، لہٰذا صرف سائیکل خریدنے کا ارادہ کیا اور اپنے دوست ارشاد مرحوم کو ساتھ لے کر کچہری روڈ سائیکل مارکیٹ پہنچ گیا۔ PECO کمپنی کی نئی سائیکل 900 روپے میں خریدی اور میں اور ارشاد اِسے باری باری چلاتے ہوئے لائٹ ہاؤس سے کھوکھراپار ملیر پہنچ گئے۔ یہ فاصلہ کوئی کم نہیں تھا، تقریباً 40 کلومیٹر بنتا تھا، لیکن ان دنوں شارع فیصل پر ٹریفک اتنا کم ہوتا تھا کہ ہم اس پر بڑے مزے سے ہنستے گاتے گھر پہنچ گئے۔

اگست 1984ء میں لاس اینجلس اولمپک منعقد ہوئے۔ ہم تو فارغ تھے لہٰذا یہ مقابلے دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔ اولمپک کی اختتامی تقریب ایک رنگین ٹی وی پر کیا دیکھی کہ اپنے گھر والا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بیچارہ دل سے ہی اتر گیا۔ اسی مہینے امّی سے ضد کرکے، اِدھر اُدھر سے پیسے اکٹھے کرکے، نرسری مارکیٹ سے سونی کمپنی کا ایک سیکنڈ ہینڈ رنگین ٹی وی ساڑھے 8 ہزار روپے کا خرید کرگھر لے آیا۔

شارع فیصل 1980ء کی دہائی میں—تصویر عبیداللہ کیہر

یہ ٹی وی اگلے کئی سال تک ہمارے گھر میں رنگ بکھیرتا رہا۔ رنگوں سے دلچسپی بڑھی تو پینٹنگ کا شوق چرایا۔ کھوڑی گارڈن کی ردّی مارکیٹ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مصوری پر غیر ملکی کتابیں جمع کیں، واٹر کلر، آئل کلر اور پوسٹر کلر کی ٹیوبوں اور برشوں سے کمرہ بھر لیا اور کاغذ، ہارڈ بورڈ اور کینوس پر برش آزمائی شروع کی۔

کراچی آرٹس کونسل میں مصوری کی کلاسز بھی ہوتی تھیں۔ وہاں داخلے کے لیے بھی معلومات لینے گیا لیکن فیس اور کورس کا دورانیہ زیادہ ہونے کے باعث داخلہ نہیں لیا۔ بس کھوڑی گارڈن ردّی مارکیٹ سے خرید کردہ مصوری کی غیر ملکی کتابوں میں دیئے گئے ٹیوٹوریلز سے ہی پینٹنگ سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ قدرتی مناظر، جھیلیں، کشتیاں، چیلیں، جھونپڑیاں، درخت، پہاڑ، بادل، سمندر اور دیگر طرح طرح کے موضوعات پر مصوری آزمائی۔ اپنی پینٹنگز بناتا، دوستوں کو دکھاتا اور ان کی جھوٹی سچی تعریفیں سن کر پھولا نہ سماتا۔

کراچی میں سامانِ مصوری کے حوالے سے 2 دکانیں بہت مشہور تھیں۔ ’کے بی سرکار‘ اور ’شمسی برادرز‘۔ یہاں بھی خوب چکر لگاتا اور اچھے سے اچھے رنگ اور غیر ملکی برش جمع کرتا رہا۔ انہی دنوں پینٹنگ کے ایک انوکھے میڈیم کا پتہ چلا۔ موسیقی کی دنیا میں آڈیو کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈرز آجانے کے باعث گرامو فون کی اہمیت ختم ہوچکی تھی۔ چھوٹے بڑے طرح طرح کے کالے گرامو فون ریکارڈز شہر بھر کے کباڑیوں کے پاس معمولی قیمتوں پر مل جاتے تھے۔ نہ جانے کس باذوق نے ان گول کالے متروکہ ریکارڈز کو پہلی مرتبہ آئل پینٹنگ کے لیے استعمال کیا اور پھر دنیا بھر میں یہ فیشن زور پکڑ گیا۔

گراموفون ریکارڈ پینٹنگز

کینوس، کارڈ بورڈ اور ہارڈ بورڈ کے ساتھ ساتھ اب یہ ریکارڈ بھی مصوری کے لیے استعمال ہونے لگے۔ میں نے بھی ان ریکارڈز پر مصوری شروع کی۔ کباڑی سے چھوٹا ریکارڈ 3 روپے کا اور بڑا ریکارڈ 5 روپے کا ملتا تھا۔ میں نے کئی ریکارڈ پینٹ کیے اور دوست احباب کو تحفتاً پیش کیے۔ یہ مصور ریکارڈ ڈیکوریشن اور سووینئر کی دکانوں پر فروخت بھی ہوتے تھے۔ میں نے جب اپنے پینٹ کیے گئے ریکارڈ ان دکانوں پر جاکر دکھائے تو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ 3 روپے والا ریکارڈ سینری پینٹ کرکے میں ان دکانداروں کو مزے سے 20 روپے میں فروخت کردیتا تھا۔ چنانچہ اس شوقِ مصوری سے بھی خوب پیسے بنائے۔

دسمبر 1984 میں جنرل ضیا الحق نے اپنی صدارت کے لیے ملک بھر میں ’ریفرنڈم‘ کروایا۔ یہ لفظ ریفرنڈم ہمارے لیے بالکل نیا تھا۔ الیکشن ہی کی طرح ریفرنڈم کے لیے بھی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے لیکن ووٹ دینے کے لیے برائے نام لوگ آئے۔ اگلے دن ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان ہوا اور ضیا صاحب پاکستان کے صدر بن گئے۔

اگلے سال جنوری میں کراچی کے ڈومیسائل پر اوپن میرٹ کے ساتھ میرا این ای ڈی یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے میکینکل ڈپارٹمنٹ میں داخلہ ہوگیا۔ لیکن یہاں داخلے کے پراسیس کے دوران میں ایک شدید ٹینشن سے گزرا۔ اپنے نام کی انگلش اسپیلنگ کی وجہ سے میں اس داخلے سے محروم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ہوا دراصل یہ کہ میرے سارے کاغذات میں ہر جگہ میرا نام Obaidullah لکھا ہوا تھا، لیکن سب سے اہم دستاویز یعنی میٹرک کے سرٹیفکٹ میں غلطی سے ’a‘ غائب ہوگیا اور میرا نام ’Obidullah‘ ٹائپ ہوگیا تھا۔

بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے میٹرک بورڈ آفس سے نیا سرٹیفکٹ نکلوانا لازمی ہوگیا، لیکن اس کے لیے میرے پاس وقت بہت کم تھا۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ میرے اسکول کے جنرل رجسٹر میں بھی میرا نام ’ai‘ کی بجائے ’e‘ کے ساتھ Obedullah درج تھا۔ میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ کراچی بھر میں جو بھی شخص اس کام کے لیے بورڈ آفس میں میری سفارش کرسکتا تھا میں اس تک پہنچا۔ خود این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈِین علوی صاحب نے بھی بہت سفارش کی۔

این ای ڈی یونیورسٹی اور کلاس فیلوز

مجھے یاد ہے کہ اس کام کے لیے میرے دوست حسنین جعفری نے بھی بڑی کوشش کی اور اپنے ادارے ’فضلی سنز‘ کے مالک فضل الرحمن صاحب (آغا جان) سے مجھے ملوایا اور ان سے بورڈ آفس میں میری سفارش کروائی تھی۔ بالآخر کئی دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اللہ اللہ کرکے مجھے میرے نام کی مطلوبہ اسپیلنگ کے ساتھ نیا سرٹیفکٹ ملا تو یونیورسٹی میں میرا داخلہ ممکن ہوسکا۔

این ای ڈی یونیورسٹی میں ہمارا بیچ 85ء-84ء کہلاتا تھا۔ یونیورسٹی کے پہلے دن مَیں خوب اہتمام سے تیار ہوکر، تھری پیس سوٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر پہنچا اور پہنچتے ہی اپنے کلاس فیلوز کے مذاق کا نشانہ بن گیا۔ میرے علاوہ جتنے بھی لڑکے تھے وہ عام کپڑے، پینٹ شرٹ یا ٹی شرٹ پہن کر آئے تھے، جبکہ میں سوٹ پہن کر کسی دولہے کی طرح تیار ہوکر پہنچا تھا۔ مجھ پر خوب ہوٹنگ ہوئی اور آوازیں کسی گئیں۔ ’ابے کیا ولیمے میں آیا ہے؟‘، ’ہار کہاں ہیں؟ُ وغیرہ وغیرہ۔

ابھی یونیورسٹی کا پہلا ہی سال تھا کہ کراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شہر میں چلنے والی سرکش منی بسوں اور ان کے بدتمیز و بدمعاش ڈرائیوروں نے بالآخر کراچی کو بدامنی کے شعلوں میں دھکیل کر ہی دم لیا۔ ہوا یہ کہ 15 اپریل کے دن ناظم آباد چورنگی پر سرسید گرلز کالج کے سامنے ایک بدمست منی بس نے 2 بہنوں، نجمہ زیدی اور بشریٰ زیدی کو کچل دیا۔ نجمہ زیدی تو شدید زخمی ہوئی لیکن بشریٰ زیدی زخموں کی تاب نہ لاکر موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی۔

15 اپریل کے دن ناظم آباد چورنگی پر سرسید گرلز کالج کے سامنے ایک بدمست منی بس نے 2 بہنوں، نجمہ زیدی اور بشریٰ زیدی کو کچل دیا—ڈان اخبار

یہ واقعہ ہوتے ہی قریبی اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا۔ احتجاج، ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ کا یہ سلسلہ آنے والے کئی دنوں کے لیے پوری کراچی میں پھیل گیا۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ کراچی کے کئی علاقوں میں کرفیو لگ گیا۔ تعلیمی ادارے کئی روز بند رہے اور شہر میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ ہم بھی گھر اور محلے تک ہی محدود رہے اور صرف قریب رہنے والے دوستوں سے ہی ملتے رہے۔

تعلیمی اداروں اور شہر میں آئے دن ہنگامے ہوتے رہتے اور پھر چھٹیاں ہوجاتیں۔ ان چھٹیوں نے ہمارا تعلیمی نقصان تو کیا ہی کیا، لیکن مجھ جیسے بندے کو آوارہ گرد بھی بنا دیا۔ جیسے ہی یونیورسٹی بند ہوتی، میں کسی نہ کسی سفر کا منصوبہ بنا کر دوستوں کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر تیار کرلیتا۔

شاہراہِ قراقرم ابھی چند سال پہلے ہی تعمیر ہوئی تھی چنانچہ 1986ء کے اکتوبر میں مَیں نے اپنے 3 دوستوں کو گلگت چلنے کے لیے آمادہ کیا۔ پہلے ہم چاروں اسلام آباد پہنچے اور ایک دوست کے رشتے داروں کے ہاں قیام کیا۔ اس وقت اسلام آباد صرف G-9 اور F-9 سیکٹر تک ہی آباد تھا اور شاہ فیصل مسجد زیرِ تعمیر تھی۔ راولپنڈی سے گلگت تک فاصلہ 18 گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ ہم نے وہ سفر کیا، گلگت دیکھا، وادئ ہنزہ کی سیر کرکے شاد ہوئے اور پھر واپس اسلام آباد پہنچے۔

1986ء میں گلگت کی سیر—تصویر عبیداللہ کیہر

شہرِ گُل و گلزار اسلام آباد کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔ ہم تو اب تک صرف کراچی کو ہی ’شہر‘ سمجھتے آئے تھے۔ ”کیا شہر اس قدر خوبصورت بھی ہوتے ہیں؟“ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے میں نے مری، ایوبیہ، نتھیا گلی کی بھی سیر کی اور دنیا کی ان حسین ترین وادیوں نے میرے ہوش اڑا کر رکھ دیے۔ اسلام آباد سے میں بذریعہ بس لاہور گیا۔ اسلام آباد سے لاہور جانے والی گورنمنٹ ٹرانسپوٹ سروس کی اس نیلی بس کا کرایہ غالباً 15 روپے تھا۔ مجھے بس کی آخری سیٹ ملی تھی۔ جب وہ بس اسلام آباد سے نکلی تو میں کافی دیر تک اپنی گردن پیچھے گھما کر دیکھتا رہا۔ میں اسلام آباد شہر کو اپنا دل دے بیٹھا تھا۔

کراچی واپس پہنچے تو حالات بدستور خراب تھے بلکہ اب مسلسل خون خرابا عام ہوگیا تھا۔ تعلیمی ادارے کچھ عرصے بعد کھل تو گئے، مگر دوبارہ بند ہونے کے لیے۔ ذرا ذرا سی بات پر ہنگامے پھوٹ پڑتے۔ ہر پارٹی اپنے اپنے مسئلے پر کراچی میں ہڑتال اور پہیہ جام کرنا اپنا حق سمجھنے لگی۔

کراچی میں فسادات سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ لسانی فسادات تھے، جن کی وجہ سے کراچی کی کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی ماحول پر بھی بہت بُرا اثر پڑا۔ ہم کلاس فیلوز یونیورسٹی جانے کی بجائے سارا سارا دن ایک دوسرے کے گھروں پر پڑے گپیں لگاتے رہتے، خواہ مخواہ کے جھگڑوں اور بلاوجہ کے معاشقوں کا شکار ہوتے رہتے۔

قصبہ کالونی علی گڑھ فسادات کی خبر

مجھے فرصت کے ان دنوں میں سیاحت کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی کا شوق بھی لاحق ہوگیا۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا ایس ایل آر SLR کیمرہ خریدا اور پروفیشنل فوٹوگرافی کی کوشش کرنے لگا۔ اگفا، فیوجی یا کوڈک کمپنی کا 36 تصویروں والا نگیٹیو رول کیمرے میں ڈال کر میں گاہے بہ گاہے شہر کے مختلف مقامات کی تصویریں لیتا رہتا۔ اتنی بدامنی کے باوجود کراچی میں ابھی چھینا جھپٹی یعنی اسٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں اپنا مہنگا کیمرہ کاندھے پر لٹکائے لٹکائے شہر کے مختلف حصوں میں گھومتا رہتا اور دل میں کہیں بھی یہ خوف گھر نہ کرتا کہ کہیں کوئی مجھ سے یہ کیمرہ چھین نہ لے۔ (بعد میں وہ دور بھی آیا کہ صرف ہزار روپے کے موبائل کی خاطر ظالم لٹیروں نے کئی معصوموں کو قتل کر ڈالا)

14 جولائی کا دن کراچی پر ایک اور قیامت ڈھا گیا۔ صدر دواخانے کے قریب بھری مارکیٹ میں مقبول ہیئر ڈریسر کے سامنے یکے بعد دیگرے 4 بم دھماکے ہوگئے۔ کراچی کا مرکز خاک و خون میں نہا گیا۔ ایک ہی دن میں 200 افراد ہلاک ہوگئے۔ شہر پر غم و اندوہ کے بادل چھاگئے۔

حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا اور ان دھماکوں کا سبب افغانستان میں جاری جنگ کو قرار دیا گیا۔ 20 جولائی کو شہر کے مختلف علاقوں میں پھر لسانی تصادم ہوئے اور شہر ایک بار پھر بدامنی کی نذر ہوگیا۔ 14 اگست یومِ آزادی بھی ہنگاموں کی نذر ہوا۔

گھر والے خوف کے باعث ہمیں گھر سے نکلنے ہی نہ دیتے۔ فائرنگ، جلاؤ، گھیراؤ، قتل و غارت اور پھر کرفیو۔ ان بار بار کے سانحات و حادثات سے جو وقت بچتا، اس میں تعلیمی ادارے کھلتے، طالب علم گرتے پڑتے پڑھنے پہنچتے اور گھسٹتے گھسٹتے کسی نہ کسی طرح تعلیمی عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے۔

اکتوبر 1987ء میں خدا کی مہربانی سے ہمارے گھر کو ٹیلی فون کنکشن مل گیا۔ اس سے کم از کم یہ فائدہ ہوا کہ اب میں گھر سے دُور ہوتا اور بدامنی یا کرفیو کے باعث گھر نہ آپاتا تو کسی دوست کے گھر رُک جاتا اور اپنے گھر فون کردیتا کہ خیریت سے ہوں۔

نومبر کے مہینے میں ہماری یونیورسٹی کی کلاس کا آل پاکستان انڈسٹریل ٹور طے پایا۔ ہم بھی کراچی کے حالات سے تنگ آئے ہوئے تھے اس لیے خوشی خوشی ٹؤر کی تیاری کرنے میں لگ گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے گھر والے جو شہر میں میرے کہیں بھی جانے پر خوفزدہ ہوجاتے تھے اور گھر واپس آنے تک مطمئن نہیں ہوتے تھے، وہ میرے آل پاکستان ٹؤر پر جانے سے قطعی پریشان نہیں تھے، بلکہ مجھے یوں لگا کہ ہم جتنے دن کے لیے کراچی سے باہر جا رہے تھے، وہ دن گویا گھر والوں کے اطمینان کے دن تھے۔

17 نومبر کو ہماری کلاس کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہوئی۔ لاہور، اسلام آباد، ٹیکسلا، مری، مظفر آباد، بالا کوٹ، کاغان، پشاور اور سوات کا 20 روزہ طویل دورہ کرکے جب ہم کراچی واپس پہنچے تو شہر ایک بالکل مختلف سیاسی ماحول کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری غیر موجودگی میں یہاں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی تھی۔ گزشتہ 8 سال سے کراچی کی میئر شپ جماعت اسلامی کے پاس تھی، لیکن اب کراچی کے میئر ڈاکٹر فاروق ستار بننے جا رہے تھے۔ اب کراچی کا ایک نیا اور غیر روایتی سیاسی روپ سامنے آ رہا تھا۔

ایم کیو ایم کے اقتدار میں آنے کے باوجود کراچی میں امن و امان قائم نہ ہوسکا بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے۔ مجھ جیسے کئی لوگ شہر سے بیزار ہوگئے۔ میں تو بس ہمیشہ شہر سے باہر جانے کے مواقع ہی تلاش کرتا رہتا تھا۔ اگر ان دنوں مجھ سے کوئی پوچھتا کہ مجھے کراچی کا کون سا علاقہ اچھا لگتا ہے، تو میں جواب دیتا ’سہراب گوٹھ‘، کیونکہ سہراب گوٹھ وہ جگہ تھی کہ جہاں کراچی سے باہر جانے کا رستہ نکلتا تھا۔

اسی سال میں نے اردو کے بین الاقوامی رسالے ماہنامہ ’رابطہ انٹرنیشنل‘ میں لکھنا شروع کیا۔ شروع میں تو رابطہ والے میرے مختصر سفر نامے شائع کرتے رہے، لیکن پھر ایک مستقل سلسلہ ’ایک شہر ایک انجمن‘ میرے حوالے کردیا گیا۔ اس عنوان کے تحت رابطہ میں پاکستانی شہروں کے تعارفی مضامین رنگین تصاویر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ مجھ سے پہلے اسے مختلف لوگ لکھتے رہے تھے، لیکن یہ سلسلہ مجھے دیے جانے کے بعد 20 پاکستانی شہروں کے تعارف میں نے ہی لکھے، نہ صرف تعارف لکھے بلکہ ان شہروں کی فوٹوگرافی بھی وہاں جاکر میں نے خود ہی کی۔ میں کراچی کی بدامنی سے ویسے ہی بیزار تھا، اب اس کام کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بار بار شہر سے فرار کا موقع ملتا، بلکہ رابطہ والوں کی طرف سے اس کام کا مجھے ایک معقول معاوضہ بھی مل جاتا تھا۔ یعنی ایک طرف تو میرا سیر و سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس کے پیسے بھی دیے جا رہے تھے۔

1988ء کے اگست میں پاکستانی تاریخ کا ایک اور بڑا حادثہ ہوا۔ 17 تاریخ کو صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق کا طیارہ ملتان میں گر کر تباہ ہوگیا اور پاکستان میں ان کا 11 سالہ اقتدار اچانک اختتام کو پہنچ گیا۔ پاکستان کے عبوری صدر غلام اسحٰق خان ہوگئے۔ ہم ایک زمانے سے جس شخص کے دستخط کرنسی نوٹوں پر دیکھتے آ رہے تھے، وہ اچانک ایک شریف النفس عبوری حکمراں کے طور پر ہمارے سامنے آگیا۔ نومبر 1988ء میں عام انتخابات کروائے گئے جن میں بینظیر بھٹو جیت گئیں اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن گئیں۔ لیکن اس بڑی تبدیلی کے باوجود کراچی کے حالات اسی طرح خراب رہے۔

میں اپنی دوستیوں اور اردو ادب سے محبت کے باعث اب بالکل اردو بولنے والا ہی لگتا تھا۔ میرا لب و لہجہ، چال ڈھال، میری زبان، میرا لباس، میرا چشمہ، سب بدل گیا تھا، بلکہ سیدھی بات یہ کہ میں تو اب خواب بھی اردو میں ہی دیکھتا تھا۔ میری تعلیم مکمل ہونے والی تھی، چنانچہ گھر میں امّی اور بہنیں اکثر میری شادی کا موضوع کھول کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ابّا کی مرضی تھی کہ میں سندھیوں میں شادی کروں، لیکن میرے خواب و خیال پر تو بس اردو بولنے والی ہی چھائی رہتی تھی۔

ہم کراچی کے جس علاقے میں رہتے تھے وہاں سندھی اکثریت تھی، لیکن ہمیں شہر جانے کے لیے مہاجر اکثریت والے علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ 1989ء میں کھوکھراپار سے کیماڑی جانے والی ایک بس پر سعود آباد میں حملہ ہوا، جس میں بندرگاہ پر کام کرنے والے کئی کچھی اور سندھی محنت کش مارے گئے۔ اب تو ابّا بہت گھبرائے اور کھوکھراپار سے نکلنے کے منصوبے بنانے لگے۔ بالآخر 1990ء کے وسط میں ہم نے کھوکھراپار والا گھر چھوڑ دیا اور مین نیشنل ہائی وے پر نسبتاً پُرامن آبادی رفاہِ عام سوسائٹی منتقل ہوگئے۔ میری انجنیئرنگ بھی اب اختتام کو پہنچ رہی تھی، بلکہ اب تو ڈگری ملنے والی تھی۔ کراچی کے بُرے حالات کی وجہ سے جو ڈگری 4 سال میں ملنی تھی، وہ ہمیں 6 سال میں مل رہی تھی۔ کراچی کے حالات نے ہمارے 2 سال ضائع کردیے تھے۔

تعلیم کی تکمیل قریب دیکھ کر میری شادی کا معاملہ زور پکڑ گیا۔ میں اردو بولنے والوں میں شادی کرنے پر بضد تھا، چنانچہ گھر والوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ چھوٹی بہن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ لہٰذا بہن نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہ کام شروع کردیا۔ ایک دن بہن نے مجھے بتایا گیا کہ اس نے میرے لیے 3، 4 گھروں کو پسند کیا ہے۔ ان میں سے انہیں جو سب سے زیادہ پسند آیا تھا، وہ قائد آباد کا ایک گھرانہ تھا۔

قائدِآباد کا سن کر میں چونکا، کیونکہ قائدِآباد میں، مَیں نے اپنا بچپن گزارا تھا اور وہاں اب بھی میرے کئی دوست رہتے تھے۔ بہن نے جو علامتیں بتائیں ان سے مجھے یقین ہوگیا کہ یہ تو میرے پرائمری اسکول کے دوست عارف کا گھر تھا۔ وہی گھر کہ جہاں ہم بچپن میں بارہا کھیلے کودے تھے، عارف کی امّی سے کہانیاں اور اچھی اچھی باتیں سنی تھیں۔ میری بہن کو اندازہ نہیں تھا کہ میں اس گھر سے واقف ہوں۔ انہوں نے عارف کی چھوٹی بہن فوزیہ کو میرے لیے پسند کیا تھا۔ مجھے بھی ان کا یہ فیصلہ پسند آیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ عارف کا گھرانہ ایک مہاجر گھرانہ تھا اور ہم سندھی تھے۔ ان دنوں کراچی میں سندھی مہاجر فساد بھی عروج پر تھا۔ ان حالات میں کسی سندھی کا رشتہ ایک مہاجر گھر میں جانا بہت انوکھی بات تھی۔ بہرحال امّی اور بہنیں ڈرتے ڈرتے میرا رشتہ لے کر عارف کے گھر چلی گئیں اور رشتہ منظور ہوگیا۔

11 ستمبر 1990ء کو میرا نکاح ہوا۔ جنوری 1991ء میں ہماری کلاس کو انجنیئرنگ کی ڈگری مل گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد فریش ویل مٹھائیاں اور شربت نورس بنانے والے کراچی کے معروف ادارے ’احمد فوڈ انڈسٹریز‘ میں مجھے نوکری بھی مل گئی۔ نکاح کے آٹھویں مہینے 26 اپریل 1991ءکے دن میری شادی ہوگئی۔ شادی کے اگلے ہی ہفتے میں اپنی دلہن کو لے کر کراچی سے نکل آیا۔ ہم ہنی مون کے لیے جارہے تھے اور ہمارا رخ اسلام آباد اور مری کی طرف تھا۔

11 ستمبر 1990ء کو میرا نکاح ہوا—تصویر عبیداللہ کیہر

این ای ڈی یونورسٹی میں کانووکیشن کے دن

میری شادی کے اگلے سال اچانک ابّا کا انتقال ہوگیا۔ گھر ایک سناٹے میں آگیا۔ 1972ء میں جب ہم خیرپور سے کراچی منتقل ہوئے تھے تو 7 افراد پر مشتمل تھے۔ 1992ء تک 30 سال کے عرصے میں ہم ساتوں افراد ایک باہم وابستہ زندگی گزارتے چلے آ رہے تھے۔ اتنا طویل عرصہ ایک ساتھ گزارنے کے بعد سب سے اہم شخص کا اس طرح یکایک معدوم ہوجانا، سناٹا تو بنتا تھا۔ گھر میں آہیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔ ابھی ابّا کے انتقال کو چوتھا دن تھا کہ گھر میں ایک نئی روح کا اضافہ ہوگیا۔ میری پہلی اولاد، اُسید اللہ کیہر۔ وہی مہمان جو ابّا کے انتقال پر تعزیت کے لیے آرہے تھے، بیٹے کی مبارک باد دے کر جانے لگے۔ ایک روح آئی، ایک روح چلی گئی۔

احمد فوڈ انڈسٹریز میں کام بہت سخت اور بڑا گرم تھا، اس لیے میں نے جلد ہی وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور کراچی شپ یارڈ پر پانی کے جہازوں کی مرمت کرنے والے ایک ادارے میں ملازم ہوگیا۔ یہاں ہم دن بھر کام بھی کرتے رہتے اور سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف بھی اٹھاتے رہتے۔ ایک دن میں آفس میں ہی تھا کہ گھر سے فون آیا۔ میرے بہنوئی بات کر رہے تھے۔ کہنے لگے:

’تمہارے لیے ایک ب‘ری خبر ہے، لیکن شکر ہے کہ جانیں محفوظ رہی ہیں۔‘

’یااللہ کیا ہوا؟‘ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

’دوپہر کو 3 اسلحہ بردار لڑکے گھر میں داخل ہوئے تھے۔ زیور لوٹ کر لے گئے ہیں۔‘

’باقی تو کوئی نقصان نہیں ہوا؟‘

’نہیں، باقی سب خیریت ہے۔‘

’الحمداللہ‘ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

آفس سے نکلا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ شہر میں جاری بدامنی اور لوٹ مار سے کراچی کا تقریباً ہر شہری متاثر ہو رہا تھا۔ ہم کوئی آسمان سے تھوڑی اترے تھے۔

1995ء میں، مَیں نے ایک پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور مختلف اداروں کے لیے ڈاکومنٹری فلمیں اور بچوں کے لیے ویڈیو کہانیاں تیار کرنے لگا۔ دوسری طرف مختلف رسالوں اور اخبارات میں سفرنامے بھی لکھ رہا تھا۔ ان سب مصروفیات کے باعث میرے لیے اپنی انجنیئرنگ کی ملازمت کو جاری رکھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ چنانچہ میں نے شپ یارڈ والی نوکری سے استعفیٰ دیا اور ’دی نیوز انفولائن‘ (The News Infoline) جوائن کرلیا۔ یہ ملازمت اور میری ذاتی دلچسپیاں چونکہ ملتی جلتی تھیں، اس لیے اگلے کئی سال میں اسی ادارے سے وابستہ رہا۔

شہر میں سفر کرتے ہوئے تقریباً ہر شہری کو پولیس والے روک کر تنگ کرتے تھے، لیکن ہمارے پاس چونکہ پریس کارڈ ہوتا تھا، اس لیے ہم جہاں چاہتے جب چاہتے مزے سے چلے جاتے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں کئی ایسے نوگو ایریاز No Go Areas بھی تھے کہ جہاں ہم تو کیا، پولیس والے بھی جاتے ہوئے گھبراتے تھے۔

1997ء میں ایم کیو ایم ورکرز کے ماورائے عدالت قتل کے الزام میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ الیکشن ہوئے تو کراچی کی تقریباً ساری نشستیں ایم کیو ایم نے جیت لیں اور مرکز میں موجود مسلم لیگ (ن) کے حکومتی اتحاد میں شامل ہوگئی۔

17 اکتوبر 1998ء کا دن تھا۔ میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ مجھے ایک اندوہناک اطلاع موصول ہوئی۔ حکیم محمد سعید کو دن دہاڑے مرکز شہر میں ان کے دواخانے کے سامنے فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور ذہن یک لخت ماؤف ہوگیا۔ یا خدا ہماری ان آزمائشوں کا آخر کب خاتمہ ہوگا؟ حکیم سعید کے قتل نے مجھے کراچی سے شدید خوفزدہ کردیا۔ اب میں سنجیدگی سے اس شہر کو چھوڑ جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ لیکن یہ ایک دشوار کام تھا۔ اپنے دوست احباب، عزیز و اقارب اور میکے سسرال کو چھوڑ دینا تو دشوار تھا ہی، کسی نئی جگہ جا کر روزگار کا حصول بھی ناممکنات میں سے لگتا تھا۔

حکیم محمد سعید

اگلے سال ایک دن اچانک مجھے آفس میں یہ اطلاع دی گئی کہ میری نوکری ختم ہوچکی ہے۔ جنگ گروپ اپنے اس ڈپارٹمنٹ کو ختم کر رہا تھا۔ لیکن مینجمنٹ کی طرف سے ساتھ ہی یہ تسلی بھی دی گئی کہ پریشان نہ ہوں، کچھ دن صبر کروں، جلد ہی مجھے کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ میں دوبارہ رکھ لیا جائے گا۔

میں سڑک پر آگیا۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ کب دوبارہ ملازمت ملے گی۔ میں نے اس موقعے کو پریشانی میں ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا، اس وقفے کو تعطیل سمجھ کر بیوی بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور سہراب گوٹھ پر آکر کراچی سے باہر نکل گیا۔ منزل کیا ہوگی، یہ ذہن میں نہ تھا۔ بس چل سو چل۔ کئی روز شہروں شہروں دوست احباب سے ملاقاتیں کرکے ہم واپس گھر پہنچے تو اطلاع ملی کہ اخلاق صاحب کے کئی فون آچکے ہیں۔ سابق ممبر سندھ اسمبلی اخلاق صاحب میرے کرم فرما تھے اور اس وقت ایک فلاحی ادارے ’کارساز ٹرسٹ‘ کے روحِ رواں تھے۔ میں ان کے ادارے کی دستاویزی فلمیں بناتا تھا۔ میں نے اخلاق صاحب کو فون کیا۔

’کیوں میاں، نوکری کا کوئی انتظام ہوا؟‘ وہ پوچھ رہے تھے۔

’ابھی تو کوئی پتہ نہیں اخلاق صاحب۔‘ میں بولا۔

’تو پھر میں تمہیں ایک جگہ بھیج رہا ہوں۔ وہاں تمہارا انٹرویو ہوگا۔‘

میں اخلاق صاحب کے حکم کی تعمیل میں انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ اس ادارے کو صوبائی سیکریٹری چاہیے تھا۔ میں نے انٹرویو بورڈ کے سوالات کے مناسب سے جواب دیے اور مجھے منتخب کرلیا گیا۔ ادارے کا ہیڈ آفس اسلام آباد میں تھا اور اس کے روحِ رواں شفا ہاسپٹل اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہیر مرحوم ہوا کرتے تھے۔ اس ادارے نے ملک بھر میں کئی اسکول قائم کیے تھے جن کا مقصد پسماندہ علاقوں کے باصلاحیت طلبہ کو کم اخراجات پر بہترین تعلیم فراہم کرنا تھا۔ مجھے ابھی نوکری کو جوائن کیے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ڈاکٹر ظہیر ایک میٹنگ میں کراچی تشریف لائے۔ مجھ سے بھی ملاقات ہوئی۔ جب انہیں میری ڈاکومنٹری فلم میکنگ کے بارے میں پتہ چلا تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی۔ انہوں نے مجھے ملک بھر میں موجود اپنے اسکولوں کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ اس سارے سفر کے اخراجات بھی انہی کی طرف سے تھے۔

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ میں تو ویسے ہی کافی دنوں سے سفر کے لیے اُتاؤلا ہو رہا تھا، چند ہی دن بعد اپنی گاڑی لے کر بیوی بچوں سمیت کراچی سے باہر نکل آیا۔ سندھ اور پنجاب سے گزرتے ہوئے اسکول کے خاص خاص کیمپس کا دورہ کرتا ہوا اسلام آباد پہنچ گیا۔ ڈاکٹر ظہیر صاحب نے میرا خوشی سے استقبال کیا۔ دورے کی رپورٹ لی اور ساتھ ہی اسلام آباد میں اپنے ادارے میں ملازمت کی پیشکش کردی۔ انہیں شفاء ہاسپٹل کے لیے ایک آڈیو ویژول انجنیئر چاہیے تھا اور اس کے لیے ان کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی تھی۔ انہوں نے میری موجودہ تنخواہ سے 3 گنا زیادہ مشاہرے کی پیشکش کردی۔ ڈاکٹر ظہیر کی یہ پیشکش مجھے حیراں و شاداں کر گئی۔ میں تو ویسے ہی کراچی کی خستہ حالی سے تنگ آیا ہوا تھا اور کئی سال سے اسلام آباد منتقل ہونے کا خواب دل میں بسائے ہوئے تھا۔ فوراً حامی بھرلی۔

یکم جنوری 2001ءکی تاریخ تھی اور پیر کا دن تھا۔ 20ویں صدی کا اختتام ہوچکا تھا اور 21ویں صدی کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ نئی صدی کے پہلے دن ابھرنے والے سورج نے جب کوہِ مرگلہ کے دامن میں اپنی اولین شعاعیں بکھیریں تو مجھے اسلام آباد میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کہنے لگا 'میاں تم کہاں سے آئے ہو؟'

میں مسکرا دیا اور اس کی طرف دیکھ کر بولا 'کراچی سے، کراچی، جو اِک شہر تھا۔'

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔