قصبہ کالونی علی گڑھ فسادات کی خبر
مجھے فرصت کے ان دنوں میں سیاحت کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافی کا شوق بھی لاحق ہوگیا۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا ایس ایل آر SLR کیمرہ خریدا اور پروفیشنل فوٹوگرافی کی کوشش کرنے لگا۔ اگفا، فیوجی یا کوڈک کمپنی کا 36 تصویروں والا نگیٹیو رول کیمرے میں ڈال کر میں گاہے بہ گاہے شہر کے مختلف مقامات کی تصویریں لیتا رہتا۔ اتنی بدامنی کے باوجود کراچی میں ابھی چھینا جھپٹی یعنی اسٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں اپنا مہنگا کیمرہ کاندھے پر لٹکائے لٹکائے شہر کے مختلف حصوں میں گھومتا رہتا اور دل میں کہیں بھی یہ خوف گھر نہ کرتا کہ کہیں کوئی مجھ سے یہ کیمرہ چھین نہ لے۔ (بعد میں وہ دور بھی آیا کہ صرف ہزار روپے کے موبائل کی خاطر ظالم لٹیروں نے کئی معصوموں کو قتل کر ڈالا)
14 جولائی کا دن کراچی پر ایک اور قیامت ڈھا گیا۔ صدر دواخانے کے قریب بھری مارکیٹ میں مقبول ہیئر ڈریسر کے سامنے یکے بعد دیگرے 4 بم دھماکے ہوگئے۔ کراچی کا مرکز خاک و خون میں نہا گیا۔ ایک ہی دن میں 200 افراد ہلاک ہوگئے۔ شہر پر غم و اندوہ کے بادل چھاگئے۔
حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا اور ان دھماکوں کا سبب افغانستان میں جاری جنگ کو قرار دیا گیا۔ 20 جولائی کو شہر کے مختلف علاقوں میں پھر لسانی تصادم ہوئے اور شہر ایک بار پھر بدامنی کی نذر ہوگیا۔ 14 اگست یومِ آزادی بھی ہنگاموں کی نذر ہوا۔
گھر والے خوف کے باعث ہمیں گھر سے نکلنے ہی نہ دیتے۔ فائرنگ، جلاؤ، گھیراؤ، قتل و غارت اور پھر کرفیو۔ ان بار بار کے سانحات و حادثات سے جو وقت بچتا، اس میں تعلیمی ادارے کھلتے، طالب علم گرتے پڑتے پڑھنے پہنچتے اور گھسٹتے گھسٹتے کسی نہ کسی طرح تعلیمی عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے۔
اکتوبر 1987ء میں خدا کی مہربانی سے ہمارے گھر کو ٹیلی فون کنکشن مل گیا۔ اس سے کم از کم یہ فائدہ ہوا کہ اب میں گھر سے دُور ہوتا اور بدامنی یا کرفیو کے باعث گھر نہ آپاتا تو کسی دوست کے گھر رُک جاتا اور اپنے گھر فون کردیتا کہ خیریت سے ہوں۔
نومبر کے مہینے میں ہماری یونیورسٹی کی کلاس کا آل پاکستان انڈسٹریل ٹور طے پایا۔ ہم بھی کراچی کے حالات سے تنگ آئے ہوئے تھے اس لیے خوشی خوشی ٹؤر کی تیاری کرنے میں لگ گئے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ہمارے گھر والے جو شہر میں میرے کہیں بھی جانے پر خوفزدہ ہوجاتے تھے اور گھر واپس آنے تک مطمئن نہیں ہوتے تھے، وہ میرے آل پاکستان ٹؤر پر جانے سے قطعی پریشان نہیں تھے، بلکہ مجھے یوں لگا کہ ہم جتنے دن کے لیے کراچی سے باہر جا رہے تھے، وہ دن گویا گھر والوں کے اطمینان کے دن تھے۔
17 نومبر کو ہماری کلاس کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہوئی۔ لاہور، اسلام آباد، ٹیکسلا، مری، مظفر آباد، بالا کوٹ، کاغان، پشاور اور سوات کا 20 روزہ طویل دورہ کرکے جب ہم کراچی واپس پہنچے تو شہر ایک بالکل مختلف سیاسی ماحول کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہماری غیر موجودگی میں یہاں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی تھی۔ گزشتہ 8 سال سے کراچی کی میئر شپ جماعت اسلامی کے پاس تھی، لیکن اب کراچی کے میئر ڈاکٹر فاروق ستار بننے جا رہے تھے۔ اب کراچی کا ایک نیا اور غیر روایتی سیاسی روپ سامنے آ رہا تھا۔
ایم کیو ایم کے اقتدار میں آنے کے باوجود کراچی میں امن و امان قائم نہ ہوسکا بلکہ حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے۔ مجھ جیسے کئی لوگ شہر سے بیزار ہوگئے۔ میں تو بس ہمیشہ شہر سے باہر جانے کے مواقع ہی تلاش کرتا رہتا تھا۔ اگر ان دنوں مجھ سے کوئی پوچھتا کہ مجھے کراچی کا کون سا علاقہ اچھا لگتا ہے، تو میں جواب دیتا ’سہراب گوٹھ‘، کیونکہ سہراب گوٹھ وہ جگہ تھی کہ جہاں کراچی سے باہر جانے کا رستہ نکلتا تھا۔
اسی سال میں نے اردو کے بین الاقوامی رسالے ماہنامہ ’رابطہ انٹرنیشنل‘ میں لکھنا شروع کیا۔ شروع میں تو رابطہ والے میرے مختصر سفر نامے شائع کرتے رہے، لیکن پھر ایک مستقل سلسلہ ’ایک شہر ایک انجمن‘ میرے حوالے کردیا گیا۔ اس عنوان کے تحت رابطہ میں پاکستانی شہروں کے تعارفی مضامین رنگین تصاویر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ مجھ سے پہلے اسے مختلف لوگ لکھتے رہے تھے، لیکن یہ سلسلہ مجھے دیے جانے کے بعد 20 پاکستانی شہروں کے تعارف میں نے ہی لکھے، نہ صرف تعارف لکھے بلکہ ان شہروں کی فوٹوگرافی بھی وہاں جاکر میں نے خود ہی کی۔ میں کراچی کی بدامنی سے ویسے ہی بیزار تھا، اب اس کام کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بار بار شہر سے فرار کا موقع ملتا، بلکہ رابطہ والوں کی طرف سے اس کام کا مجھے ایک معقول معاوضہ بھی مل جاتا تھا۔ یعنی ایک طرف تو میرا سیر و سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس کے پیسے بھی دیے جا رہے تھے۔
1988ء کے اگست میں پاکستانی تاریخ کا ایک اور بڑا حادثہ ہوا۔ 17 تاریخ کو صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق کا طیارہ ملتان میں گر کر تباہ ہوگیا اور پاکستان میں ان کا 11 سالہ اقتدار اچانک اختتام کو پہنچ گیا۔ پاکستان کے عبوری صدر غلام اسحٰق خان ہوگئے۔ ہم ایک زمانے سے جس شخص کے دستخط کرنسی نوٹوں پر دیکھتے آ رہے تھے، وہ اچانک ایک شریف النفس عبوری حکمراں کے طور پر ہمارے سامنے آگیا۔ نومبر 1988ء میں عام انتخابات کروائے گئے جن میں بینظیر بھٹو جیت گئیں اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن گئیں۔ لیکن اس بڑی تبدیلی کے باوجود کراچی کے حالات اسی طرح خراب رہے۔
میں اپنی دوستیوں اور اردو ادب سے محبت کے باعث اب بالکل اردو بولنے والا ہی لگتا تھا۔ میرا لب و لہجہ، چال ڈھال، میری زبان، میرا لباس، میرا چشمہ، سب بدل گیا تھا، بلکہ سیدھی بات یہ کہ میں تو اب خواب بھی اردو میں ہی دیکھتا تھا۔ میری تعلیم مکمل ہونے والی تھی، چنانچہ گھر میں امّی اور بہنیں اکثر میری شادی کا موضوع کھول کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ابّا کی مرضی تھی کہ میں سندھیوں میں شادی کروں، لیکن میرے خواب و خیال پر تو بس اردو بولنے والی ہی چھائی رہتی تھی۔
ہم کراچی کے جس علاقے میں رہتے تھے وہاں سندھی اکثریت تھی، لیکن ہمیں شہر جانے کے لیے مہاجر اکثریت والے علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ 1989ء میں کھوکھراپار سے کیماڑی جانے والی ایک بس پر سعود آباد میں حملہ ہوا، جس میں بندرگاہ پر کام کرنے والے کئی کچھی اور سندھی محنت کش مارے گئے۔ اب تو ابّا بہت گھبرائے اور کھوکھراپار سے نکلنے کے منصوبے بنانے لگے۔ بالآخر 1990ء کے وسط میں ہم نے کھوکھراپار والا گھر چھوڑ دیا اور مین نیشنل ہائی وے پر نسبتاً پُرامن آبادی رفاہِ عام سوسائٹی منتقل ہوگئے۔ میری انجنیئرنگ بھی اب اختتام کو پہنچ رہی تھی، بلکہ اب تو ڈگری ملنے والی تھی۔ کراچی کے بُرے حالات کی وجہ سے جو ڈگری 4 سال میں ملنی تھی، وہ ہمیں 6 سال میں مل رہی تھی۔ کراچی کے حالات نے ہمارے 2 سال ضائع کردیے تھے۔
تعلیم کی تکمیل قریب دیکھ کر میری شادی کا معاملہ زور پکڑ گیا۔ میں اردو بولنے والوں میں شادی کرنے پر بضد تھا، چنانچہ گھر والوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ چھوٹی بہن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ لہٰذا بہن نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہ کام شروع کردیا۔ ایک دن بہن نے مجھے بتایا گیا کہ اس نے میرے لیے 3، 4 گھروں کو پسند کیا ہے۔ ان میں سے انہیں جو سب سے زیادہ پسند آیا تھا، وہ قائد آباد کا ایک گھرانہ تھا۔
قائدِآباد کا سن کر میں چونکا، کیونکہ قائدِآباد میں، مَیں نے اپنا بچپن گزارا تھا اور وہاں اب بھی میرے کئی دوست رہتے تھے۔ بہن نے جو علامتیں بتائیں ان سے مجھے یقین ہوگیا کہ یہ تو میرے پرائمری اسکول کے دوست عارف کا گھر تھا۔ وہی گھر کہ جہاں ہم بچپن میں بارہا کھیلے کودے تھے، عارف کی امّی سے کہانیاں اور اچھی اچھی باتیں سنی تھیں۔ میری بہن کو اندازہ نہیں تھا کہ میں اس گھر سے واقف ہوں۔ انہوں نے عارف کی چھوٹی بہن فوزیہ کو میرے لیے پسند کیا تھا۔ مجھے بھی ان کا یہ فیصلہ پسند آیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ عارف کا گھرانہ ایک مہاجر گھرانہ تھا اور ہم سندھی تھے۔ ان دنوں کراچی میں سندھی مہاجر فساد بھی عروج پر تھا۔ ان حالات میں کسی سندھی کا رشتہ ایک مہاجر گھر میں جانا بہت انوکھی بات تھی۔ بہرحال امّی اور بہنیں ڈرتے ڈرتے میرا رشتہ لے کر عارف کے گھر چلی گئیں اور رشتہ منظور ہوگیا۔
11 ستمبر 1990ء کو میرا نکاح ہوا۔ جنوری 1991ء میں ہماری کلاس کو انجنیئرنگ کی ڈگری مل گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد فریش ویل مٹھائیاں اور شربت نورس بنانے والے کراچی کے معروف ادارے ’احمد فوڈ انڈسٹریز‘ میں مجھے نوکری بھی مل گئی۔ نکاح کے آٹھویں مہینے 26 اپریل 1991ءکے دن میری شادی ہوگئی۔ شادی کے اگلے ہی ہفتے میں اپنی دلہن کو لے کر کراچی سے نکل آیا۔ ہم ہنی مون کے لیے جارہے تھے اور ہمارا رخ اسلام آباد اور مری کی طرف تھا۔