چین: بچوں کی پیدائش کی شرح 1960 سے بھی کم ترین سطح پر آگئی
بیجنگ: چین میں ایک بچہ ایک خاندان پالیسی کے خاتمے کے باوجود سرکاری اعداو شمار کے مطابق گزشتہ سال آبادی بڑھنے کی شرح میں نمایاں کمی آئی۔
چینی حکومت نے 2016 میں بچوں کی تعداد کو ایک سے بڑھا کر 2 کردیا تھا تاہم یہ تبدیلی جوڑوں کو مزید بچے پیدا کرنے کے لیے متاثر نہیں کرسکی اور ماہرین کے مطابق اس کی وجہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت والے ملک میں رہائش کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں عمرانیات (سوشیالوجی) کے پروفیسر وانگ فینگ کا کہنا تھا کہ ’دہائیوں پرانی معاشی و سماجی تبدیلیوں سے چین میں ایک نئی نسل سامنے آئی ہے جن کے لیے شادی اور بچے سنبھالنا اہمیت نہیں رکھتا جیسا کہ ان کے والدین کے لیے تھا‘۔
مزید پڑھیں: چین میں ایک بچہ پالیسی ختم ہونے کا امکان
نیشنل بیورو آف اسٹیٹسٹکس (این بی ایس) کے ڈیٹا کے مطابق 2018 میں 1 کروڑ 52 لاکھ کے قریب بچے پیدا ہوئے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 2 کروڑ تھی۔
وانگ کا کہنا تھا کہ پیپلز ریپبلک آف چائنا کی بنیاد رکھے جانے کے بعد سے آبادی کے بڑھنے کی شرح کم ترین سطح پر ہے جو 1960 کے برابر آگئی ہے جب ملک قحط کا شکار تھا۔
آبادی بڑھنے کی شرح کم ہونے کے باوجود چین 1 ارب 39 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا ایک بچہ پالیسی اور لیبر کیمپس ختم کرنے کا فیصلہ
واضح رہے کہ چین میں 1979 میں ایک بچہ ایک گھرانہ پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت جوڑوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا تھا جبکہ اسقاط حمل کے لیے بھی زور دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے بچوں کی پیدائش کی شرح انتہائی کم ہوئی تھی۔
قبائلی علاقوں کے خاندانوں، جن کے یہاں پہلی پیدائش بیٹی کی ہو اور اقلیتوں کو اس پالیسی سے استثناء دی گئی تھی۔
چین کے نئے شہری ضابطہ اخلاق، جسے 2020 میں متعارف کرایا جانا ہے، کے مطابق ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کو ختم کردی جائے گی۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 22 جنوری 2019 کو شائع ہوئی