بلوچستان: کوئلے کی کان میں دھماکا، 3 کان کن جاں بحق
بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کی کان میں زہریلی گیس بھرجانے سے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 3 کان کن جاں بحق ہوگئے۔
مائنز چیف انسپکٹر شفقت فیاض کا کہنا تھا کہ دھماکے کو کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی 3 کان کن ملبے میں پھنسے ہوئے تھے۔
شفقت فیاض کا کہنا تھا کہ 6 کان کن 1700 فٹ کی گہرائی میں کام کررہے تھے کہ میتھین گیس کے دھماکے کے نتیجے میں کان کا ایک حصہ تباہ ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ ریسکیو اہلکاروں نے ملبے سے 3 افراد کی لاشیں نکالیں جن کی شناخت محمد عمر، عبدالمنان اور عبدالغنی کے نام سے ہوئی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان: کوئلے کی کان میں گیس بھرنے سے 3 کان کن جاں بحق
مائنز لیبر یونین کے عہدیدار عبدالحکیم کا کہنا تھا کہ ’ کان کن اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں،اب تک حکومت میں سے کوئی بھی یہاں نہیں پہنچا‘۔
مقامی لیبر فیڈریشن کے صدر خیر محمد کاکڑ نے بھی شکایت کی کہ مائنز ڈپارٹمنٹ سے ایک بھی فرد ریسکیو آپریشن کی نگرانی کے لیے نہیں آیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے مائنز انسپکٹر کو 3 مرتبہ فون کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا ہے کہ چمالانگ کے علاقے سے ریسکیو ٹیم طلب کی گئی تھی جو متاثرہ کان میں پھنسے ہوئے افراد کو باہر نکالے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری ہرممکن کوشش ہے کہ کان میں پھنسے ہوئے افراد کو فوری طور پر باہر نکالا جائے‘۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: کوئلے کی کان میں دھماکا، 14 کان کن پھنس گئے
خیال رہے کہ کانوں میں کام کرنے والوں کے لیے مخدوش حالات ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں آئے روز کان کن مختلف حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔
مائنز اینڈ منرلز ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 18 برس میں بلوچستان میں ایسے حادثات میں ایک ہزار سے زائد کان کن جاں بحق ہوچکے۔
رواں ماہ کے آغاز میں دکی ہی میں کوئلے کی کان میں زہریلی گیس بھرجانے سے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 4 کان کن جاں بحق ہوگئے تھے۔
گزشتہ برس دسمبر میں دکی کے علاقے چمالانگ ہی 2 مختلف حادثات 3 کان کن جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے تھے۔
25 نومبر کو بھی دکی میں کوئلے کی کان میں زہریلی گیس بھرنے کے باعث 3 کان کن جاں بحق اور 2 بے ہوش ہوگئے تھے۔
قبل ازیں 15 ستمبر کو دکی میں کوئلے کی کان میں زہریلی گیس بھرنے کے باعث 2 کان کن جاں بحق اور 2 بےہوش ہو گئے تھے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق بلوچستان کی ڈھائی ہزار کانوں میں کم از کم 20 ہزار افراد کام کررہے ہیں۔