نقطہ نظر

یورپی یونین اور برطانیہ میں طلاق، نان و نفقہ پر جھگڑا، کس کو کتنا خسارہ؟

ٹرمپ کا رویہ یورپی ممالک میں تشویش کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا برطانیہ کے ذریعے یورپی یونین کو بلیک میل کرتا ہے۔

26 جون 2016ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ (BREXIT) کو تو کامیابی بخش دی، لیکن اب حال یہ ہے کہ یورپی یونین سے کس طرح نکلنا ہے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بغیر معاہدے یونین کو چھوڑنے کا ڈر ستانے لگا ہے، کیونکہ یہ برطانیہ کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف برطانیہ کی معیشت یورپی یونین کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر تھی بلکہ بیروزگاری کی شرح بھی کم تھی، لیکن مزید طلب کی خواہش نے جنم لیا اور برطانوی عوام نے ملازمتیں غیرملکیوں کو ملنے اور معاشی مشکلات کے ڈر سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد لینے کے دینے پڑنے کا خوف بڑھ گیا ہے اور اگر بغیر ڈیل یورپی یونین سے نکلے تو برطانوی عوام کے خواب اور امیدیں انہیں مایوسی اور اندھیروں میں دھکیل سکتی ہیں۔

آخر قوم پرستی جسے اب سماجی ماہرین برطانویت کا نام دے رہے ہیں اچانک کیسے اُبھری؟ اس کا جواب تارکینِ وطن کی لہر ہے۔ برطانوی عوام نے تارکینِ وطن کی آمد کے ساتھ اپنی قوم کی ہیئت اور ثقافت کو بدلتا دیکھا۔ اس پر ان کا ردِعمل معاشی نتائج کی پرواہ کیے بغیر بریگزٹ کی صورت میں نکلا۔ تارکینِ وطن کی لہر پر ردِعمل کی ایک وجہ معاشی بحران تھا۔ برطانوی عوام نے مشرقی یورپ سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد کو ایک خطرے کے طور پر لیا۔ اگرچہ برطانیہ کی معیشت نئے تارکینِ وطن کو جذب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی تھی لیکن عوام نے معاشی بحران کے دوران جو بھگتا، یہ فیصلہ کرتے وقت صرف اسے ہی ذہن میں رکھا۔

برطانوی عوام نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ اندازے کی بہت بڑی غلطی تھی۔ برطانوی عوام میں قوم پرستی کے اس رجحان سے 4 سال پہلے 2002ء میں لیبر پارٹی کے سابق رکنِ پارلیمنٹ ٹونی رائٹ نے ‘دی اینڈ آف بریٹن’ (The End of Britain) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں ٹونی رائٹ نے اپنے ملک کے مرد و خواتین میں شناخت کے بحران کی بروقت نشاندہی کی اور لکھا کہ برطانوی عوام میں یہ تصور واضح نہیں کہ وہ کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ اور کیا ہیں؟

ٹونی رائٹ کے مطابق برطانویت انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے عوام کو جوڑنے کے لیے تخلیق کیا گیا۔ 20ویں صدی میں جنگ، سلطنت اور بادشاہت نے برطانویت کو قائم رکھنے کے لیے تاریخی اور علامتی گوند کا کردار ادا کیا۔ جونہی ان عظیم کامیابیوں اور کمال کی یاد دھندلی پڑی اور بادشاہت بھی بحران میں آئی تو یہ گوند کمزور پڑگئی۔ اس کے نتیجے میں برطانیہ ایک گہری مشکل لیے 21ویں صدی میں داخل ہوا۔

وزیرِاعظم ٹونی بلئیر کے دور میں ویلز، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کو اپنی علاقائی پارلیمان تو مل گئیں لیکن انگلینڈ کو کچھ نہ ملا۔ 2008ء اور 2009ء میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کے دوران یونائیٹڈ کنگڈم (United Kingdom) کے مختلف علاقے الگ الگ رفتار کے ساتھ معاشی مشکلات سے نکلے۔ اگرچہ لندن کے معاشی مرکز میں کاروبار دوبارہ سے چمک اٹھے لیکن انگلینڈ کے مختلف صنعتی علاقوں میں آج بھی اس بحران کے اثرات موجود ہیں۔ اس بحران کے نتیجے میں سیاسی قیادت نے بچت کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے نتیجے میں عدم مساوات کی کیفیت بھی پیدا ہوئی۔

ان حالات کے نتیجے میں انگلش عوام میں قومی عظمت کا خواب پیدا ہوا جس کے لیے قربانی کا بکرا ‘یورپی سُپر اسٹیٹ’ بنی۔ یہی قوم پرستی تھی جس کی بنا پر انگلینڈ اور ویلز کے علاقوں کے عوام نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا جبکہ لندن اور اسکاٹ لینڈ میں رہنے والوں کی اکثریت نے بریگزٹ کے خلاف رائے دی۔

لیبر پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ ٹونی رائٹ کے لفظوں میں کہا جائے تو ‘ملک خود اپنے ساتھ جنگ میں ہے، بریگزٹ نے ثقافتی جنگ نہیں چھیڑی بلکہ اس جنگ کو زنجیروں سے آزاد کیا ہے، بوڑھے یا جوان، دیہی یا شہری، ڈرپوک اور بہادر، ہر کوئی اس کا حصہ ہے’۔ برطانوی عوام وطن اور شناخت کے معاملات پر لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح کے خیالات نے پورے یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کو سہارا دیا ہے۔ برطانیہ میں 2 جماعتی نظام کسی تیسری قوت کے ابھرنے میں رکاوٹ ہے لیکن بریگزٹ نے وہی کردار نبھایا۔ اب بریگزٹ نے قوم کو مزید تقسیم کردیا ہے۔

یورپی یونین مخالف دھڑے کو خوش رکھنے کے لیے وزیرِاعظم تھریسا مے نے بریگزٹ ڈیل پر مذاکرات میں سخت مؤقف اپنایا۔ تھریسا مے نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک یورپی یونین کی مشترکہ مارکیٹ، کسٹمز یونین، یورپی عدالت کے دائرہ اختیار سے علیحدہ ہوجائے گا۔ تھریسا مے نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ پوری دنیا کے ساتھ الگ الگ تجارتی معاہدے کرے گا اور یورپی شہریوں کی محدود تعداد کو ہی ملک میں کام کی اجازت دے گا۔ اس سب کے باوجود ہر ممکن طریقے سے یورپی یونین کے ساتھ روابط کو بھی مضبوط رکھے گا۔

برطانوی وزیرِاعظم تھریسا مے— اے ایف پی

تھریسا مے نے ان فیصلوں میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا اور قبل از وقت الیکشن کا اعلان کردیا۔ تھریسا مے کو امید تھی کہ وہ اس قدر بڑی اکثریت حاصل کرلیں گی کہ بلاشرکت غیرے فیصلے کرپائیں گی۔ مگر جون 2017ء کے الیکشن میں تھریسا مے کی امیدیں پوری نہ ہوسکیں اور وہ پہلے سے حاصل اکثریت بھی کھو بیٹھیں۔ اقلیتی حکومت کی سربراہ بننے کے بعد تھریسا مے نے برطانوی عوام کو بریگزٹ ڈیل پر زیادہ کچھ نہ بتایا اور کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد ایسی ڈیل پارلیمنٹ میں پیش کی جس سے بریگزٹ کے حامی اور مخالف دونوں دھڑوں میں اپنے دشمن پیدا کرلیے۔

بریگزٹ ڈیل پر صرف ایک فریق خوش ہے اور وہ ہے برسلز۔ یورپی یونین کے خارجی بارڈر پر طویل قطاروں سے بچنے کے لیے تھریسا مے اور برسلز کے درمیان یہ طے پایا کہ بریگزٹ کے عبوری عرصے کے دوران اگر برسلز اور لندن کے درمیان آزاد تجارت معاہدہ نہیں ہوپاتا تو 2020ء تک شمالی آئرلینڈ یورپی یونین کی کسٹمز یونین اور مشترکہ مارکیٹ کا حصہ رہے گا۔ بریگزٹ کے حامی اس شق کو ملک کی مستقل تقسیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وزیرِاعظم تھریسا مے اپنی بریگزٹ ڈیل سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اگرچہ انہوں نے حزبِ اختلاف کو بات چیت کی دعوت بھی دی ہے۔ تھریسا مے کا خیال ہے کہ بریگزٹ کی تاریخ نزدیک آتے ہی ان کی ڈیل کے مخالفین بغیر ڈیل علیحدگی کے خوف سے ان کی حمایت پر مجبور ہوجائیں گے۔

ابھی تک وزیرِاعظم تھریسا مے کے پاس اس مشکل سے نکلنے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اعتماد کا ووٹ جیتنے کے بعد تھریسا مے کا رویہ دوبارہ سخت ہوگیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کسی بھی سمجھوتے پر پہنچنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہے۔

سافٹ بریگزٹ کے حامی یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ ملک یورپی کسٹمز یونین کا حصہ رہے اور شمالی آئرلینڈ بارڈر پر کنٹرول برقرار رکھے۔ ایک تجویز یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ اگر تھریسا مے شمالی آئرلینڈ کے بیک اسٹاپ پلان کے خاتمے کی تاریخ دے دیں تب بھی ان کی بریگزٹ ڈیل منظور کی جاسکتی ہے۔ اس تجویز پر اتفاق گیند کو ایک بار پھر یورپی یونین کے کورٹ میں پھینک دے گا اور برطانیہ میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ٹل جائے گا۔ اس اتفاق رائے کے لیے ضروری ہے کہ اراکینِ پارلیمان (ایم پیز) کی اکثریت سمجھوتے پر رضامندی ظاہر کرے لیکن اب تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایم پیز ساتھی اراکین کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔

برطانیہ میں بریگزٹ کے خلاف مظاہرے—دی انڈی پینڈنٹ

برطانوی پارلیمنٹ میں سمجھوتے پر تیار نظر آتے اراکین کی رائے کو دونوں طرف کے سخت گیر ممبران ایک نتیجے پر پہنچنے نہیں دے رہے۔ اراکین کی ایک بڑی تعداد ’نو ڈیل‘ کو ہی واحد حل قرار دے رہی ہے۔ ایک اور بڑا گروپ کسی بھی ڈیل کی مخالفت پر تیار ہے، اور مزے کی بات یہ کہ دونوں گروپ خود کو حق بجانب قرار دیتے ہیں۔

تھریسا مے بریگزٹ کی تاریخ کو آگے نہیں بڑھاتیں اور ڈیل پر اتفاق بھی نہیں ہوتا تو اس صورت میں 29 مارچ سے برطانیہ اور یورپی یونین کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کے تحت ہوگی۔ برطانوی سیاسی اور معاشی فیصلوں میں یورپی یونین کے پابند نہیں رہیں گے۔

برطانوی وزیرِ خزانہ فلپ ہیمنڈ کا کہنا ہے کہ بغیر معاہدے کے یورپی یونین کو چھوڑنے کی صورت میں برطانیہ کو اگلے 15 برسوں میں 150 ارب پاؤنڈ کا خسارہ ہوگا۔ قلیل مدتی اثرات اس سے بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے غذائی قلت سے بچنے کے اقدامات ابھی سے شروع کردیے ہیں۔ ’نو ڈیل‘ کی صورت میں ممکن ہے کہ حکومت کو عوام سے اپیل کرنا پڑے کہ وہ اپنی غذائی عادات تبدیل کریں تاکہ خوراک کی قلت سے بچا جاسکے۔ ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں اسٹینڈ بائی کردیا گیا ہے۔

بریگزٹ کو اب بھی روکنے کی امید رکھنے والے اس انتظار میں ہیں کہ تھریسا مے کی بریگزٹ ڈیل پر سمجھوتے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اس کے بعد وہ بریگزٹ پر دوسرے ریفرنڈم کی کوشش کریں گے۔ یہ حکمتِ عملی رکھنے والوں کے لیے لیبر پارٹی کی حمایت کا حصول ضروری ہے، تاہم اب تک لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کا کردار بھی تباہ کن رہا ہے۔

وزیرِاعظم تھریسا مے عدم اعتماد کی ایک تحریک سے بچ نکلی ہیں لیکن کوربن ان کے خلاف ایک کے بعد ایک تحریک لانے کے موڈ میں ہیں جب تک کہ تھریسا مے حکومت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ اسی لیے کوربن حکومت کے ساتھ بات چیت سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ کوربن اپنی جماعت میں موجود دوسرے ریفرنڈم کے حامیوں کی رائے پر بھی کان نہیں دھر رہے اور وہ حکومت گرا کر ہر صورت خود آگے آنا چاہتے ہیں۔ دوسرا ریفرنڈم بھی سیاسی قیادت کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔ یہ راستہ مزید تقسیم اور نفرتوں کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تقسیم اور نفرت کا ایک مظاہرہ بریگزٹ ڈیل پر ووٹنگ کے روز برطانوی پارلیمنٹ کے باہر کھڑے 2 گروپوں کے نعروں کی گونج میں صاف نظر آیا جو ایک دوسرے کو نسل پرست اور غدار کے القابات سے نواز رہے تھے۔ بریگزٹ کو ناکام بنانے کے کئی سازشی نظریات ابھی سے سامنے آچکے ہیں۔ سابق وزیرِ خارجہ بورس جانسن ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ اگر بریگزٹ کو ناکام بنایا گیا تو عوام یہ محسوس کریں گے ملک پر اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ نے سازش کی ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں سمجھوتے پر تیار نظر آتے اراکین کی رائے کو دونوں طرف کے سخت گیر ممبران ایک نتیجے پر پہنچنے نہیں دے رہے

یورپی یونین نے بھی برطانیہ کے بغیر معمولات چلانے کا ذہن بنالیا ہے۔ یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ ینکر بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بریگزٹ پر بات کے لیے یومیہ 5 منٹ سے زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر برطانوی الگ ہو رہے ہیں تب بھی یورپی یونین کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ برسلز میں اس وقت ایجنڈا برطانیہ کی علیحدگی سے ہونے والا نقصان نہیں بلکہ یورپی یونین کے مستقبل کے منصوبے ہیں۔

یورپی یونین کے باقی 27 ملکوں میں اب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وزیرِاعظم تھریسا مے 2 سال کے دوران لندن میں دیگر فریقین پر یہ واضح کرنے میں ناکام رہی ہیں کہ یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد ملک کا مستقبل کیسا ہوگا۔ ان حالات میں یورپی یونین کو چاہیے کہ وہ برطانیہ کو الگ ہونے دے تاکہ وہ یونین سے باہر رہ کر اس سوال کا جواب اطمینان سے تلاش کرسکیں۔ اس سوچ کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو برطانیہ کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجائے فرانس، اٹلی، آسٹریا اور دیگر ملکوں میں ابھرتے ہوئے دائیں بازو پر توجہ دینی چاہیے۔

یورپی یونین کے ارکان میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ اگر برطانیہ بریگزٹ کی تاریخ کو 29 مارچ سے چند ہفتوں کے لیے آگے بڑھانا چاہتا ہے تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر برطانیہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین میں رہتا ہے تب بھی اچھا ہے اور ناروے کی طرح سنگل مارکیٹ کا حصہ رہنا چاہتا ہے تب بھی پرابلم نہیں، لیکن اب بریگزٹ پر بحث کرکے توانائیاں ضائع نہ کی جائیں بلکہ مستقبل پر دھیان دیا جائے۔ نو ڈیل کی صورت میں بھی یورپی یونین کو بڑے خسارے کا خدشہ نہیں۔ بڑی کاروباری کمپنیاں نو ڈیل کی صورت میں متبادل منصوبے تشکیل دے چکی ہیں۔

صدر ٹرمپ کا یورپی یونین اور نیٹو کے بارے میں رویہ بھی یورپی ملکوں میں تشویش کا باعث ہے اور ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ امریکا برطانیہ کے ذریعے یورپی یونین کو بلیک میل کرتا ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی کی صورت میں یونین اس بلیک میلنگ سے بھی نجات پا لے گی۔

برطانوی وزیرِاعظم تھریسا مے بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ سے قبل پارلیمنٹ سے خطاب کر رہی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

یورپی یونین میں برطانیہ سے نجات کی سوچ رکھنے والے بھی بریگزٹ کے حامیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ یورپی یونین پر برطانیہ کی علیحدگی کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے معاشی اثرات ضرور پڑیں گے۔ یورپی کمیشن کے اپنے اعداد و شمار اور دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق 2019ء میں برطانیہ کی علیحدگی کے بعد یورپی بلاک کی برآمدات اور شرح نمو بڑھے گی لیکن بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافے کی پیشگوئی ہے۔

برطانیہ جرمنی کے بعد یورپی بلاک کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی یونین کی جی ڈی پی پر بھی اثر پڑے گا جبکہ برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی یونین کی آبادی 13 فیصد کم ہوجائے گی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کی علیحدگی سے یورپی بلاک کی جی ڈی پی امریکا سے نیچے آجائے گی، کیونکہ اس وقت 28 رکنی یورپی بلاک کی جی ڈی پی امریکا سے صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔

2007ء سے پہلے برطانیہ یورپی یونین کا معاشی انجن تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ پچھلے 2 سال سے باقی یورپی یونین ملکوں کی معیشت برطانیہ کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ یورپی کمیشن کو امید ہے کہ ترقی کی یہ شرح اس سال اور آئندہ برس بھی جاری رہے گی۔ یورپی یونین کے باقی 27 ملکوں کی پیداواری صلاحیت بھی برطانیہ سے زیادہ ہے۔ اس سال برطانیہ کی مصنوعات اور سروسز کی برآمدات 3 اعشاریہ ایک فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ یورپی یونین کی شرح 4 اعشاریہ 5 فیصد ہونے کی پیشگوئی ہے۔ برطانیہ میں صارفین اپنی آمدن کا زیادہ حصہ گھریلو ضروریات پر خرچ کرتے ہیں جبکہ یورپی یونین کے باقی ملکوں میں بچتوں کی شرح بلند ہے۔

برطانیہ کے سرکاری قرضے 2001ء میں جی ڈی پی کا 35 فیصد تھے جبکہ باقی ملکوں کا قرض جی ڈی پی کے 60 فیصد کے برابر تھا لیکن معاشی بحران کے بعد برطانیہ کے قرضے بھی تیزی سے بڑھے اور اب یورپی بلاک کے ساتھ اس کا فرق زیادہ نہیں رہا۔ بیروزگاری کی شرح کے اعتبار سے برطانیہ کا ریکارڈ باقی یورپی بلاک سے بہتر رہا ہے۔ اس سال برطانیہ میں بیروزگاری کی شرح 4 اعشاریہ 7 فیصد کے آس پاس رہنے کی توقع ہے جو یورپی بلاک کی 7 اعشاریہ 7 فیصد سے بہت نیچے ہے لیکن یورپی بلاک کی لیبر مارکیٹ میں بہتری کی پیشگوئی ہے جبکہ برطانیہ کی لیبر مارکیٹ مستحکم رہے گی۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔