یورپی یونین اور برطانیہ میں طلاق، نان و نفقہ پر جھگڑا، کس کو کتنا خسارہ؟
26 جون 2016ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ (BREXIT) کو تو کامیابی بخش دی، لیکن اب حال یہ ہے کہ یورپی یونین سے کس طرح نکلنا ہے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بغیر معاہدے یونین کو چھوڑنے کا ڈر ستانے لگا ہے، کیونکہ یہ برطانیہ کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف برطانیہ کی معیشت یورپی یونین کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر تھی بلکہ بیروزگاری کی شرح بھی کم تھی، لیکن مزید طلب کی خواہش نے جنم لیا اور برطانوی عوام نے ملازمتیں غیرملکیوں کو ملنے اور معاشی مشکلات کے ڈر سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد لینے کے دینے پڑنے کا خوف بڑھ گیا ہے اور اگر بغیر ڈیل یورپی یونین سے نکلے تو برطانوی عوام کے خواب اور امیدیں انہیں مایوسی اور اندھیروں میں دھکیل سکتی ہیں۔
آخر قوم پرستی جسے اب سماجی ماہرین برطانویت کا نام دے رہے ہیں اچانک کیسے اُبھری؟ اس کا جواب تارکینِ وطن کی لہر ہے۔ برطانوی عوام نے تارکینِ وطن کی آمد کے ساتھ اپنی قوم کی ہیئت اور ثقافت کو بدلتا دیکھا۔ اس پر ان کا ردِعمل معاشی نتائج کی پرواہ کیے بغیر بریگزٹ کی صورت میں نکلا۔ تارکینِ وطن کی لہر پر ردِعمل کی ایک وجہ معاشی بحران تھا۔ برطانوی عوام نے مشرقی یورپ سے بڑی تعداد میں تارکینِ وطن کی آمد کو ایک خطرے کے طور پر لیا۔ اگرچہ برطانیہ کی معیشت نئے تارکینِ وطن کو جذب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی تھی لیکن عوام نے معاشی بحران کے دوران جو بھگتا، یہ فیصلہ کرتے وقت صرف اسے ہی ذہن میں رکھا۔