نقطہ نظر افغانستان میں جاری کھیل کا آخری مرحلہ: فیصلہ کس کے حق میں آئے گا؟ چین پاکستان کی طرح طالبان حکومت کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو قبول کرسکتا ہے، مگر مذاکراتی حل کو فوقیت دیتے ہوئے۔ منیر اکرم لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں. افغانستان میں کھیل اب آخری مرحلے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں امریکا کی طویل المدت فوجی مہم کے خاتمے کی توقعات نے چند ایسے منظرناموں کو جنم دیا ہے جو ملکی مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں۔ موجودہ سفارت کاری سے یا تو ایک ایسے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس سے افغانستان اور خطے کے اندر ظاہری حیثیت میں امن قائم ہوسکتا ہے یا پھر یکطرفہ یا امریکا نیٹو کے نظم و ضبط سے عاری انخلا کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جو افغانستان کی 40 سالہ خانہ جنگی کے باب کو ایک بار پھر دہرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم دیگر منظرناموں کا بھی امکان ہے، کیونکہ کئی قوتیں کھیل کے آخری مرحلے میں ٹکراتی ہیں یا پھر اتحاد کرتی ہیں۔ سب سے نمایاں قوت ہے افغان طالبان کی شورش کا زور۔ یہ اب ملک کے 60 فیصد حصے پر غالب ہے اور یہ حوصلہ پست افغان سیکیورٹی اہلکاروں پر بھی زبردست دباؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔ خوداعتمادی سے سرشار طالبان نے مشکل میں گھری اشرف غنی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور غیرملکی افواج کے انخلا کے ٹائم ٹیبل، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پر عائد سفر اور دیگر پابندیاں ہٹائے جانے کے حوالے سے وہ صرف امریکا سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، طالبان توقع کر رہے ہیں کہ نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ دیگر افغان جماعتوں پر سیاسی حل آسانی سے تھوپ سکیں گے۔ طالبان کی قوت میں ابھار اور عزم کا عکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مایوسی اور بے صبری میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے ہل چل مچادی ہے کہ نصف یعنی (14 ہزار) امریکی فوجی اہلکاروں کا افغانستان سے انخلا جلد ہی کیا جائے گا۔ اس بیان نے نہ صرف کابل حکومت کو کنارے سے لگا دیا بلکہ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں گرفت کو بھی ختم کردیا۔ نتیجتاً، خطے کی طاقتوں کا کردار اور اثر نمایاں طور پر وسیع ہوگیا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب طاقتوں میں سے پاکستان کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ ہے ابھرتی قوت بنے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ بظاہر تعلقات۔ اسلام آباد نے حالیہ ابوظہبی مذاکرات میں اہم طالبان نمائندگان کی شرکت کو ممکن بنا کر اپنے اثر و رسوخ کو ثابت بھی کیا۔ تاہم، ایران کا اثر و رسوخ حالیہ وقتوں میں کافی حد تک بڑھا ہے۔ ایران نے بڑی احتیاط کے ساتھ سابق شمالی اتحاد کے عناصر کے ساتھ اپنے روایتی روابط کو برقرار رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور معاونت بھی کی۔ تہران افغانستان سے امریکی انخلا کو آسان نہیں ہونے دے گا۔ جبکہ روس نے طالبان کے ساتھ تعاون کی راہیں کھولنے اور افغان داخلی مذاکرات کی ابتدا کی کوشش کرتے ہوئے خود کو اس کھیل میں شامل کیا ہے۔دوسری طرف بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں افغان سیاسی حل سے طالبان حکومت بحال نہ ہوجائے۔ لہٰذا اب بھارت افغانستان میں موجود اپنے ‘اثاثوں‘ کو ایران اور روس کی اچھے تعلقات کے ذریعے محفوظ بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے مرحلے کی میزبانی کے ذریعے اس امن عمل کا حصہ بنے۔ تاہم ان کے اثر و رسوخ کا اندازہ طالبان کی جانب سے ریاض میں مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت سے انکار سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب کا اصرار تھا کہ وہ کابل انتظامیہ سے بات چیت کریں۔ طالبان کی جانب سے افغان داخلی مذاکرات کی مزاحمت سے قطر، جسے سعودیوں نے کنارے سے لگا دیا ہے، کافی مطمئن نظر آتا ہے۔ چین کے ہاتھ میں اس کھیل کے اہم ’نہ کھیلے گئے‘ پتے ہیں۔ یہ اپنے مالی اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے خطے کے تمام کھلاڑیوں، پاکستان، ایران، روس اور وسطی ایشیائی ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین ان پتوں کو امریکا اور چین کے درمیان تناؤ سے بھرپور بدلتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں کھیلے گا۔ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں امریکا، تھیوری کے اعتبار سے طالبان کی زیادہ تر شرائط پوری کرسکتا ہے، جن میں انخلا کا ٹائم ٹیبل، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پر عائد سفری و دیگر پابندیوں کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم 2 ایسے معاملات ہیں جو امریکا اور طالبان کے درمیان جاری اس عمل کو متاثر کرسکتے ہیں۔ پہلا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے کسی حل پر اتفاق کے بعد امریکی انسدادِ دہشتگردی اہلکاروں کی موجودگی اور دوسرا ہے افغان داخلی مذاکرات۔ امریکا افغانستان میں اپنے پیچھے ایک چھوٹی انسدادِ دہشتگردی فورس چھوڑ جانا چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، طالبان نے امریکا کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کے دوران اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اگر ایران اور روس اس قسم کی مسلسل امریکی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں تو طالبان کا مؤقف تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ بین الاقوامی انسدادِ دہشتگردی پر سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔طالبان کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر غیر آمادگی ایک سب سے اہم رکاوٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت جائز تھی جسے 2001ء میں طاقت کے زور پر ختم کیا گیا۔ انہیں یہ بھی ڈر ہوسکتا ہے کہ داخلی افغان مذاکرات اور جنگ بندی سے شورش کا زور متاثر ہوسکتا ہے اور ان کی جھگڑالو مہم تقسیم کا شکار ہوسکتی ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ طالبان اپنی طاقت کے بھرم کا شکار ہوں۔ ٹرمپ کو ایک طرف رکھیے، امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں اپنی ذلت قبول نہیں کرے گی۔ امریکی جارحانہ رویہ شاید کابل میں خلیل زاد کی مذاکرارت یا لڑائی کے جذباتی بیان تک ہی محدود نہ ہو۔ نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کے لیے اگر کوئی فیس سوینگ یا اپنا وقار برقرار رکھنے کا کوئی فارمولہ نہ ہو تو امریکا مزید جارحانہ آپشنز کی طرف جاسکتا ہے، جیسے جنگ کی نجکاری۔ ایسی تجویز سابق بلیک واٹر کے ایرک پرنس نے دی تھی کہ کابل میں حنیف اتمر جیسا کوئی سخت شخص بٹھادیا جائے جو لڑائی جاری رکھے اور طالبان کے خلاف خراسان گروپ میں جنگجو دولت اسلامیہ کے عناصر کی معاونت کرے اور طالبان رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں کی مہم شروع کرے۔ (لیکن روس اور ایران کے مطابق تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہو رہا ہے)۔ دوسری طرف، طالبان کو خطے کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ حتیٰ کہ طالبان کی جانب سے کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے انکار پر ایران ان کی حوصلہ افزائی تو کرتا ہے لیکن ان کے وزیرِ خارجہ نے نئی دہلی میں یہ اعلان کیا تھا کہ تہران مستقبل کی حکومت میں طالبان کی غالب طاقت نہیں چاہتا۔ روس بھی ایک متوازن نتیجہ چاہتا ہے جبکہ چین پاکستان کی طرح طالبان حکومت کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو قبول کرسکتا ہے، مگر یہ ایک تھوپے گئے حل کے بجائے ایک مذاکراتی حل کو فوقیت دے گا۔ طالبان نے اب تک اچھا کھیل کھیلا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کھیل میں اب تک جو جیتا ہے صرف اس کے ساتھ ہی خوش رہیں۔ طالبان کی جنگی فتح کو امریکا اور خطے کی طاقتوں دونوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے اسٹریٹجک مقاصد کے لیے دیرپا سیاسی حل ہی بہترین ثابت ہوگا۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مذکورہ دونوں مسائل کے سفارتی حل نکالنے کے لیے اسلام آباد بہتر پوزیشن میں ہے۔ایک بین الاقوامی یا اقوام متحدہ کی انسدادِ دہشتگردی فورس اقوام متحدہ اور/یا تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے ذریعے بنائی جاسکتی ہے۔ کابل میں عبوری یا غیرجانبدار حکومت کے قیام، انتخابات کو التوا میں ڈالنے اور اس کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے لیے جنگ بندی سے طاقت کی تقسیم کے فارمولے پر افغان داخلی مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کے نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کا موقع فراہم ہوسکتا ہے۔ افغان پارٹیوں کو حل قبول ہو، اس کے لیے ان کے ساتھ امریکا، یورپ، چین اور گلف کوپریشن کونسل (جی سی سی) کی جانب سے مستقبل میں مالی معاونت کے وعدوں سمیت انہیں مناسب مراعات کی پیش کش بھی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے مربوط اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کے مفادات میں بہتر سفارتی کردار کو ذاتی مفادات کے لیے بھی استعمال کرنا ہوگا، مثلاً، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو نارمل سطح پر لانا، افغانستان کی زمین سے ہونے والی بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کی دہشتگردی کا خاتمہ، افغان مہاجرین کی واپسی اور سی پیک کا پھیلاؤ اور اس پر بلا تعطل عمل، امریکا کی جانب سے اعتراض کا خاتمہ اور اس منصوبے میں جی سی سی کی شراکت داری۔یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 جنوری 2019 کو شائع ہوا۔ منیر اکرم لکھاری اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔