32 عالمی ریکارڈز توڑنے والا راشد نسیم
جن لوگوں نے راشد نسیم کو ایکشن میں دیکھا ہے وہ راشد نسیم کے مضبوط سَر اور طاقتور ہاتھوں کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا یہ مارشل آرٹ ماہر عینک پہنتا ہے، لیکن یہ عینک ان کے لیے نن چکس (nunchuks) کو گھومانے یا 2 درجن سے زائد گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کی خاطر ناریل، خربوزوں، اخروٹ اور سوڈا کین کو اپنے سر، ہاتھوں یا کوہنیوں سے چکنا چُور کرنے میں رکاوٹ کبھی نہیں بنا۔
یہ 2003ء کی بات ہے جب وہ گھر پر ٹی وی کے سامنے بیٹھے چیلنز تبدیل کررہے تھے، اس دوران اے ایکس این (AXN) پر ایک پروگرام نے ان کا دھیان کھینچا۔ اس پروگرام میں ایک مارشل آرٹسٹ ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے دیکھ کر راشد نے سوچا کہ ایسا عالمی ریکارڈ تو وہ خود بھی قائم کرسکتے ہیں۔
راشد نے اپنے کزن کو کراٹے پریکٹس کرتا دیکھ کر 9 برس کی عمر میں ہی مکہ بازی شروع کردی تھی اور پھر 11 برسوں کے بعد ہی اپنے 32 گنیز ورلڈ ریکارڈز میں سے پہلا ریکارڈ قائم کرلیا۔ ان 11 برسوں کے دوران، راشد مختلف ریکارڈز کے حصول کی پریکٹس ذاتی حیثیت میں کرتا رہا۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ باضابطہ طور پر ریکارڈز قائم کرنے کی کوشش کرتے۔ تاہم انہیں پختہ یقین تھا کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ ریکارڈ قائم کرکے دکھا سکتے ہیں۔
شاہ فیصل ٹاؤن میں واقع اپنی پاکستان اکیڈمی آف مارشل آرٹس کے اسٹوڈیو میں لکڑی سے بنے مارشل آرٹس ڈمی کے پاس بیٹھے راشد نسیم گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، ’میں خود سے ہی ریکارڈز توڑنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور پھر اپنی کارکردگی پر ایسے خوش ہوتا کہ جیسے میں نے کامیابی حاصل کرلی ہو۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ’باضابطہ طور پر کوئی ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے ہی میں لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میں کب گنیز ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کروں گا، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ اگر زندگی باقی رہی تو عالمی ریکارڈ قائم ضرور کروں گا۔‘
راشد نے 2014ء میں منعقد ہونے والے پنجاب یوتھ فیسٹیول کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ صرف 3 دنوں کے اندر ہی انہوں نے 4 عالمی ریکارڈ قائم کرلیے۔ یہ تو محض اس شاندار سفر کی شروعات تھی۔ اگلے 4 سالوں کے دوران انہوں نے ہر قسم کے ریکارڈز میں اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ آج 36 سالہ راشد نسیم اپنے سر سے سب سے زیادہ 35 ناریل، 49 اخروٹ، 254 تربوز توڑنے کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔
تربیت کے ابتدائی دن ان کے لیے بہت ہی کٹھن ثابت ہوئے۔ ایک ویلڈر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ ٹرینر کی فیس ادا کرپاتے۔ خوش قسمتی سے، ان کے استاد نے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیس کے بغیر ہی تربیت لینے کی اجازت دے دی۔