چوتھا حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول: کیا اچھا رہا کیا بُرا؟
چوتھا حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول: کیا اچھا رہا کیا بُرا؟
کسی بھی زبان کے ادب کا ایک اہم ترین مقصد وہاں کے لوگوں کے سماجی و نفسیاتی رویوں کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ تاہم ادب کی ترقی و ترویج تب ہی ہوسکتی ہے جب لکھا جانے والا ادب زیرِ بحث آئے اور اس پر بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے۔
کسی زمانے میں سندھ میں ’سندھی ادبی سنگت‘ اور یہاں کی سیاسی جماعتیں ابھرتے ادیبوں کی تربیت کیا کرتی تھیں۔
سندھی ادبی سنگت کی زیرِ اہتمام نشستوں میں نہ صرف نوجوان لکھاری شریک ہوتے بلکہ سینئر ادیب بھی ان نشستوں کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کی تحریروں پر اصلاحی تنقید کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا مگر آج اسی ادبی سنگت کا حال یہ ہے کہ اس میں صرف ’سنگت‘ رہ گئی ہے۔
لیکن فطرت کسی بھی خلا کو پُر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ چند برسوں سے سندھ میں ادبی میلوں کی بھرمار ہے۔ سندھ کے کئی شہروں میں اس قسم کے میلے تسلسل سے منعقد کیے جارہے ہیں جہاں پر ادب سے وابستہ لوگ اپنے خیالات کو پیش کرتے رہتے ہیں، یہ ایک اچھی روایت ہے کہ ادبی گہما گہمی کو جاری رکھنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ 4 برسوں سے حیدرآباد میں سندھ سمیت پاکستان کے ادبی حلقوں کے لیے ’حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول‘ (ایچ ایل ایف) کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جس کا اہم ترین مقصد ادب سے جڑے ان تمام لوگوں کے خیالات کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے جو اس قسم کے پلیٹ فارم سے اپنی بات کرسکتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ حیدرآباد جیسے شہر میں ہمیں وہ تمام لوگ سننے کو مل جائیں جنہیں سننے کے لیے ہم کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔