نقطہ نظر

شکست کا ملبہ صرف کھلاڑیوں پر کیوں؟

ناکامیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اگر کھلاڑی میدان میں ناکام ہورہےہیں تو ٹیم مینجمنٹ بھی اچھے فیصلے کرنے سےقاصر ہے

پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی مکمل تباہی کے بعد مایوس قوم کے پاس کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جسے وہ مکمل توجہ اور دلچسپی سے دیکھتی ہے۔ قومی کھلاڑیوں کی جانب سے کھیلے گئے ہر اچھے شاٹ پر شائقین دل کھول کر داد دیتے ہیں جبکہ قومی کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر ان کا دل بیٹھ جاتا ہے۔

کرکٹ کا کھیل اس وقت واحد سرگرمی ہے جو پوری قوم کو یکجا کردیتی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں کرکٹ کا کھیل ایک ایسے گرداب میں پھنس گیا ہے جہاں فتوحات سے زیادہ ناکامیاں اس کا مقدر بن رہی ہیں۔ مختصر فارمیٹ کی کرکٹ کے مقابلے میں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کو تواتر کے ساتھ شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ شکستیں صرف بیرونِ ملک کھیلی جانے والی سیریز تک محدود نہیں ہیں بلکہ اب تو متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں بھی قومی ٹیم کو شکستوں کا مسلسل منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔

امارات میں سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شکست کے باوجود تجزیہ کار اور شائقینِ کرکٹ دورہءِ جنوبی افریقہ میں قومی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی امید لگائے بیٹھے تھے کیونکہ جنوبی افریقہ کی موجودہ ٹیم ماضی کی ٹیموں کے مقابلے میں اتنی مضبوط نہیں تھی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل ناکامیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہاں کھلاڑی میدان میں ناکام ہورہے ہیں وہیں شکست کے خوف سے دوچار ٹیم مینجمنٹ بھی فیصلے کرنے کی صلاحیت کھوتی جا رہی ہے۔

کوچ مکی آرتھر

پاکستان کرکٹ کے بہت سے ناقدین اور ماضی کے چند نامور کرکٹرز ٹیسٹ کرکٹ میں ہونے والی مسلسل ناکامیوں کے تناظر میں سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن میری رائے میں سرفراز احمد سے زیادہ ٹیم مینجمنٹ ان ناکامیوں کی زمہ دار ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور سے ٹیم کی مسلسل شکستوں کے بارے میں باز پرس کرے اور اگر وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکیں تو ان کو تبدیل کردیا جائے۔

مکی آرتھر ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے قومی ٹیم کی کوچنگ کر رہے ہیں لیکن چند ایک کامیابیوں کے علاوہ ان کی کوچنگ کے ٹیم پر مثبت اثرات نظر نہیں آئے بلکہ گزشتہ ایک سال سے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ کارگردگی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ہیڈ کوچ کی حیثیت سے مکی آرتھر کو اپنے بہترین 11 کھلاڑیوں کا معلوم ہونا چاہیئے اور اگر کوئی کھلاڑی غیر تسلی بخش کارکردگی پیش کر رہا ہے تو اس کھلاڑی کی جگہ کسی دوسرے کھلاڑی کو موقع دیا جائے لیکن افسوس کہ ہیڈ کوچ اور ٹیم مینجمنٹ دلیرانہ فیصلے لینے سے قاصر ہیں۔

ہمیں اپنی مخالف ٹیموں سے سیکھنا چاہیئے کہ وہ کس طرح کامیاب حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد میزبان ٹیم نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے 4 فاسٹ باؤلرز کو ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ پچ رپورٹ کے مطابق تیسرے دن کے بعد وکٹ اسپنرز کو مدد فراہم کرسکتی تھی۔ لیکن افریقہ کی ٹیم مینجمنٹ نے ہمت کی اور یوں ان کا فیصلہ بالکل کامیاب ٹھہرا۔

بالکل اسی طرح گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف ابوظہبی میں کھیلے جانے والے تیسرے اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ میں اپنے تجربہ کار اسپنرز اشانت سودھی کو ڈراپ کرکے ولیم سمروائل کو ٹیسٹ ڈیبیو کروایا۔ بظاہر یہ فیصلہ مشکل تھا، لیکن اس دلیرانہ فیصلے کی برکت دیکھیے کہ سمروائل نے اہم ترین میچ میں 5 وکٹیں لیں اور یوں امارات کی سرزمین پر نیوزی لینڈ پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔

یہ وہ فیصلے ہیں جو بتارہے ہیں کہ کرکٹ کاغذ پینسل بر نہیں بلکہ میدان میں کھیلی جاتی ہے اور وہی ٹیم کامیابی حاصل کرتی ہے جو میدان کی صورتحال کے لحاظ سے ٹیم کا چناؤ کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے موجودہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو کاغذ پینسل کے استعمال کا بہت زیادہ ہی شوق ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ جب وہ آسٹریلوی ٹیم کی کوچنگ کررہے تھے تو ایک موقع پر 4 کھلاڑیوں کو ٹیم میں صرف اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ انہوں نے ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا۔

گزشتہ سال کے وسط میں پاکستان نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کا کامیاب دورہ کیا تھا۔ ان دوروں پر شاداب خان اور فہیم اشرف نے اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت ٹیم کی کامیابیوں میں نمایاں کردار ادا کیا تھا لیکن جب اکتوبر سے نئے سیزن کا آغاز ہوا تو ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ پاکستان کی کمزور بیٹنگ لائن اور سینئر کھلاڑیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے تناظر میں اگر ان کھلاڑیوں کو ہوم سیریز کے دوران ہی اعتماد دیا جاتا تو اس کا مثبت نتیجہ سامنے آتا۔

بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور

پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں حالیہ ناکامیوں کی ذمہ داری بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گرانٹ فلاور تقریباً 4 سال سے قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں لیکن اتنے طویل عرصے میں بھی وہ بلے بازوں کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ رنز کس طرح بنائے جائیں، کس طرح خوف سے نکل کر ہمت اور بہادری کے ساتھ وکٹ پر باؤلرز کا مقابلہ کیا جائے۔

اگر جنوبی افریقہ کے دورے میں 6 اننگز میں صرف 2 مرتبہ ٹیم 200 رنز سے اوپر جائے، اگر امارات کی وکٹوں پر 200 رنز سے بھی کم ملنے والے ہدف کو حاصل نہ کیا جاسکے تو اسے بھلا کس طرح بیٹنگ کوچ کی کامیابی کہا جاسکتا ہے؟

سلیکشن پالیسی

پاکستان کی سلیکش پالیسی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ امارات کی بیٹنگ کے لیے آسان کنڈیشن میں 16 رکنی ٹیم میں 7 مستند بیٹسمین شامل تھے جبکہ جنوبی افریقہ کے مشکل دورے کے لیے 16 رکنی ٹیم میں صرف 6 مستند بیٹسمین شامل کئے گئے اور اس دورے کے لیے نوجوان بیٹسمین سعد علی کو بغیر کوئی وجہ بتائے اور بغیر کھلائے ڈراپ کردیا گیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ایک انتہائی قابلِ افسوس بات ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے اکثر کھلاڑی اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ عثمان صلاح الدین، سمیع اسلم، جنید خان اور فواد عالم اس فہرست میں شامل وہ کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں زبان زدِ عام ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔

اظہر علی اور اسد شفیق

پاکستان کی حالیہ ناکامیوں میں ٹیم کے 2 سینئر بلے باز اظہر علی اور اسد شفیق کی خراب ترین کارکردگی کا بھی اہم کردار ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی گزشتہ 9 سال سے ٹیم کا حصہ ہیں اور اس عرصے میں ان کو انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان اور مصباح الحق جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور ان سے سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ امید اور خیال یہی تھا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ کھلاڑی کسی حد تک پاکستان کی بیٹنگ کا بوجھ اُٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔

ایسا لگتا ہے کہ ان کھلاڑیوں پر کرکٹ بورڈ کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے کیونکہ یہ کھلاڑی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہونے کے بجائے ٹیم پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ اب چونکہ اظہر علی اور اسد شفیق صرف ٹیسٹ کرکٹ میں ہی پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور پاکستان کی اگلی ٹیسٹ سیریز 10 مہینے دُور ہے، لہٰذا کرکٹ بورڈ کو دو ٹوک الفاظ میں ان دونوں کھلاڑیوں پر واضح کردینا چاہیے کہ اگر اس عرصے میں ان کھلاڑیوں نے اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پایا تو پھر ان کو مستقل طور پر ٹیم سے ڈراپ کردیا جائے گا۔

ٹیم کے بجائے اپنے لیے کھیلنے کی بیماری

یہ پہلو ناجانے کتنے عرصے سے اٹھایا جارہا ہے کہ ہمارے کھلاڑی اب ٹیم کے لیے کھیلنے کے بجائے اپنے لیے کھیلتے ہیں۔ ہر کھلاڑی بس یہ سوچتا ہے کہ کسی طرح 40 یا 50 رنز بنالیے جائیں تاکہ اگلے میچ میں جگہ پکی ہوجائے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے سابق بلے باز کیون پیٹرسن نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں تبصرہ کیا کہ پاکستانی ٹیم کا مسئلہ یہ ہے کہ کھلاڑی ٹیم کے لیے نہیں بلکہ اپنے لئے کھیل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ کھلاڑی نصف سنچری کرنے کے بعد اپنے طور پر سمجھ جاتے ہیں کہ اگلے میچ کے لیے ان کی جگہ پکی ہوگئی اور یوں وہ اطمینان سے آوٹ ہوجاتے ہیں۔

پی سی بی کے نئے مینجنگ ڈائریکٹر کی آمد

پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ ماہ لیسٹرشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان کو کرکٹ بورڈ کا مینجنگ ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔ وسیم خان نے اس عہدے پر تعیناتی کے بعد جن شعبوں میں حالات بہتر کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے ان میں ڈومیسٹک کرکٹ بھی شامل ہے۔ شائقین کرکٹ ایک تجربہ کار شخص سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی اپنی تعیناتی کو درست ثابت کریں گے اور ایسے اقدامت کریں گا جن کے پاکستان کرکٹ پر مثبت اثرات محض پڑیں گے ہی نہیں، بلکہ اس کے نتائج نظر بھی آئیں گے۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔