یہ وہ فیصلے ہیں جو بتارہے ہیں کہ کرکٹ کاغذ پینسل بر نہیں بلکہ میدان میں کھیلی جاتی ہے اور وہی ٹیم کامیابی حاصل کرتی ہے جو میدان کی صورتحال کے لحاظ سے ٹیم کا چناؤ کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے موجودہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو کاغذ پینسل کے استعمال کا بہت زیادہ ہی شوق ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ جب وہ آسٹریلوی ٹیم کی کوچنگ کررہے تھے تو ایک موقع پر 4 کھلاڑیوں کو ٹیم میں صرف اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ انہوں نے ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھا۔
گزشتہ سال کے وسط میں پاکستان نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کا کامیاب دورہ کیا تھا۔ ان دوروں پر شاداب خان اور فہیم اشرف نے اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت ٹیم کی کامیابیوں میں نمایاں کردار ادا کیا تھا لیکن جب اکتوبر سے نئے سیزن کا آغاز ہوا تو ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ پاکستان کی کمزور بیٹنگ لائن اور سینئر کھلاڑیوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے تناظر میں اگر ان کھلاڑیوں کو ہوم سیریز کے دوران ہی اعتماد دیا جاتا تو اس کا مثبت نتیجہ سامنے آتا۔
بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ میں حالیہ ناکامیوں کی ذمہ داری بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گرانٹ فلاور تقریباً 4 سال سے قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں لیکن اتنے طویل عرصے میں بھی وہ بلے بازوں کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ رنز کس طرح بنائے جائیں، کس طرح خوف سے نکل کر ہمت اور بہادری کے ساتھ وکٹ پر باؤلرز کا مقابلہ کیا جائے۔
اگر جنوبی افریقہ کے دورے میں 6 اننگز میں صرف 2 مرتبہ ٹیم 200 رنز سے اوپر جائے، اگر امارات کی وکٹوں پر 200 رنز سے بھی کم ملنے والے ہدف کو حاصل نہ کیا جاسکے تو اسے بھلا کس طرح بیٹنگ کوچ کی کامیابی کہا جاسکتا ہے؟
سلیکشن پالیسی پاکستان کی سلیکش پالیسی بھی سمجھ سے باہر ہے۔ امارات کی بیٹنگ کے لیے آسان کنڈیشن میں 16 رکنی ٹیم میں 7 مستند بیٹسمین شامل تھے جبکہ جنوبی افریقہ کے مشکل دورے کے لیے 16 رکنی ٹیم میں صرف 6 مستند بیٹسمین شامل کئے گئے اور اس دورے کے لیے نوجوان بیٹسمین سعد علی کو بغیر کوئی وجہ بتائے اور بغیر کھلائے ڈراپ کردیا گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نوجوان اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ایک انتہائی قابلِ افسوس بات ہے کہ سلیکشن کمیٹی کے ناقص فیصلوں کی وجہ سے اکثر کھلاڑی اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ عثمان صلاح الدین، سمیع اسلم، جنید خان اور فواد عالم اس فہرست میں شامل وہ کھلاڑی ہیں جن کے بارے میں زبان زدِ عام ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔
اظہر علی اور اسد شفیق پاکستان کی حالیہ ناکامیوں میں ٹیم کے 2 سینئر بلے باز اظہر علی اور اسد شفیق کی خراب ترین کارکردگی کا بھی اہم کردار ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی گزشتہ 9 سال سے ٹیم کا حصہ ہیں اور اس عرصے میں ان کو انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان اور مصباح الحق جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور ان سے سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ امید اور خیال یہی تھا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ کھلاڑی کسی حد تک پاکستان کی بیٹنگ کا بوجھ اُٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہوا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کھلاڑیوں پر کرکٹ بورڈ کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے کیونکہ یہ کھلاڑی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہونے کے بجائے ٹیم پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ اب چونکہ اظہر علی اور اسد شفیق صرف ٹیسٹ کرکٹ میں ہی پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور پاکستان کی اگلی ٹیسٹ سیریز 10 مہینے دُور ہے، لہٰذا کرکٹ بورڈ کو دو ٹوک الفاظ میں ان دونوں کھلاڑیوں پر واضح کردینا چاہیے کہ اگر اس عرصے میں ان کھلاڑیوں نے اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پایا تو پھر ان کو مستقل طور پر ٹیم سے ڈراپ کردیا جائے گا۔
ٹیم کے بجائے اپنے لیے کھیلنے کی بیماری یہ پہلو ناجانے کتنے عرصے سے اٹھایا جارہا ہے کہ ہمارے کھلاڑی اب ٹیم کے لیے کھیلنے کے بجائے اپنے لیے کھیلتے ہیں۔ ہر کھلاڑی بس یہ سوچتا ہے کہ کسی طرح 40 یا 50 رنز بنالیے جائیں تاکہ اگلے میچ میں جگہ پکی ہوجائے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے سابق بلے باز کیون پیٹرسن نے جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں تبصرہ کیا کہ پاکستانی ٹیم کا مسئلہ یہ ہے کہ کھلاڑی ٹیم کے لیے نہیں بلکہ اپنے لئے کھیل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ کھلاڑی نصف سنچری کرنے کے بعد اپنے طور پر سمجھ جاتے ہیں کہ اگلے میچ کے لیے ان کی جگہ پکی ہوگئی اور یوں وہ اطمینان سے آوٹ ہوجاتے ہیں۔
خرم ضیاء خان
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔