پھر پہلی کے چاند کو کون پوچھے گا؟
کسی سیانے صحافی نے کہا تھا کہ ہر افواہ کے پیچھے کسی نہ کسی حد تک حقیقت ضرور ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں یہ اطلاعات کافی گرم رہیں کہ حکومت نے ’رویت ہلال کمیٹی‘ تحلیل کردی ہے یا ایسا کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اس کی تردید کردی گئی، یوں یہ ’اطلاع‘ ایک جھوٹی خبر اور ’حقیقی افواہ‘ قرار پائی۔
اس بابت ایک قیاس یہ بھی ہے کہ ایسی ’پھلجھڑیاں‘ چھوڑنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ذرا عوام کے بھاؤ لے لیں کہ اگر واقعی ایسا کیا جائے تو کیا ہوگا؟
’رویت ہلال کمیٹی‘ کے ختم کیے جانے کے ذکر پر ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر ملی جلی آرا سامنے آئیں۔ کچھ افراد کا خیال تھا کہ یہ اچھا ہوا کیونکہ اب ’سائنسی‘ بنیادوں پر ہمارے رمضان اور عیدوں کا تعین ہوگا۔ ایک خیال یہ تھا کہ ’ایک ملک، ایک عید‘ کے ذریعے ’وفاق‘ مضبوط اور صوبائیت کی بیخ کنی ہوگی، جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا تھا کہ دراصل اب 2 یا 3 عیدوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہماری ’رویت ہلال کمیٹی‘ کے ذریعے تمام مکتبہ ہائے فکر کے علما متفقہ طور پر ہی چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کا اعلان کرتے تھے۔