پھر پہلی کے چاند کو کون پوچھے گا؟
کسی سیانے صحافی نے کہا تھا کہ ہر افواہ کے پیچھے کسی نہ کسی حد تک حقیقت ضرور ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں یہ اطلاعات کافی گرم رہیں کہ حکومت نے ’رویت ہلال کمیٹی‘ تحلیل کردی ہے یا ایسا کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر اس کی تردید کردی گئی، یوں یہ ’اطلاع‘ ایک جھوٹی خبر اور ’حقیقی افواہ‘ قرار پائی۔
اس بابت ایک قیاس یہ بھی ہے کہ ایسی ’پھلجھڑیاں‘ چھوڑنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ذرا عوام کے بھاؤ لے لیں کہ اگر واقعی ایسا کیا جائے تو کیا ہوگا؟
’رویت ہلال کمیٹی‘ کے ختم کیے جانے کے ذکر پر ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر ملی جلی آرا سامنے آئیں۔ کچھ افراد کا خیال تھا کہ یہ اچھا ہوا کیونکہ اب ’سائنسی‘ بنیادوں پر ہمارے رمضان اور عیدوں کا تعین ہوگا۔ ایک خیال یہ تھا کہ ’ایک ملک، ایک عید‘ کے ذریعے ’وفاق‘ مضبوط اور صوبائیت کی بیخ کنی ہوگی، جبکہ دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا تھا کہ دراصل اب 2 یا 3 عیدوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہماری ’رویت ہلال کمیٹی‘ کے ذریعے تمام مکتبہ ہائے فکر کے علما متفقہ طور پر ہی چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کا اعلان کرتے تھے۔
جس طرح گئے وقتوں میں نیا ’چاند‘ دیکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا، بالکل اسی طرح ہمارے دوست بھی اپنے ’چاند‘ دیکھنے کے لیے بہتیرے جتن کرتے (اگرچہ ’وہ‘ اکثر نیا نہیں ہوتا تھا) مگر دونوں چاندوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ اس کی ’رویت‘ کی خاطر چھتوں پر جایا جاتا یا کم سے کم گھر کے کسی دریچے یا آنگن میں موجود ہونا ضروری ہوتا۔
پھر دلچسپ بات دیکھیے کہ پہلے جس طرح دونوں چاند دیکھنا ایک معرکے سے کم نہ ہوتا اور ہر دوسری جگہ اس پر جھگڑے بھی ہوجاتے لیکن اب وقت کے ساتھ سائنس نے دونوں ’چاندوں‘ کی ’دید‘ کے لیے بے شمار ’سہولتیں‘ مہیا کردی ہیں، ساتھ ہی ان سے جڑے دنگے بھی خاصے کم ہوگئے ہیں۔
آج ایک طرف جہاں آکاش کے چاند کے لیے جدید ذرائع میسر ہیں، وہیں خیالوں کے ’چاند‘ کی رویت بھی اب کمپیوٹر اور موبائل کے جلتے بجھتے پردے پر بہت آسانی سے ہوجاتی ہے! پہلے ہمارے دوست ’اپنا‘ چاند دیکھنے کے لیے دنوں تک منصوبے بناتے، پھر اس ’مہم‘ کو سَر کرتے ہوئے پتہ چلتا کہ ’چاند‘ تو دکھائی نہ دیا، اُلٹا کسی ’چاند والے‘ نے آپ کو ’دیکھ‘ لیا تو چاند کی دید تو گئی سو گئی، الٹا آپ ہی کو دن میں تارے نظر آگئے۔ اب یہ امر بہ سہولت ’دیکھ کر ڈیلیٹ کردینا!‘ کے چھوٹے سے فقرے کے ساتھ انجام پاجاتی ہے۔
’رویت ہلال کمیٹی‘ کے حوالے سے ہم اس غم میں گھلے جا رہے ہیں کہ اللہ نہ کرے، اگر ’رویت ہلال کمیٹی‘ اٹھ گئی تو ’رویت‘ جیسا اردو کا ایک بہت خوبصورت لفظ ہماری عام بول چال سے بالکل ہی نکل جائے گا!
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔
