قومی ٹیم کی دور اندیشی کو داد دیجیے
حیرانی اور پریشانی کا ایک اصول ہے۔ یہ دونوں صرف اسی وقت دستک دیتی ہیں جب کچھ عجب یا غیر معمولی ہوتا دیکھتی ہیں۔ لیکن جب ان کی آمد اس وقت ہوجائے جب سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا ہو تو یہ بن بلائے مہمان جیسی لگتی ہیں۔
یہ تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کل سے ایک ہی خبر مسلسل گھوم پھر کر سامنے آرہی ہے کہ قومی ٹیم کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں 0-3 سے بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
اب آپ خود بتائیے کہ بھلا اس خبر میں ایسا کیا نیا ہے جس پر حیران اور پریشان ہوا جائے؟ لیکن اس کے باوجود یہ حیرانی اور پریشانی بن بلائے مہمان کی طرح مسلسل شائقین کرکٹ کو تنگ کیے جارہی ہیں۔
اگر جنوبی افریقہ میں قومی ٹیم کی کارکردگی سے کچھ لوگ اب بھی بے خبر ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ قومی ٹیم اس سیریز سے پہلے 5 مرتبہ بطور مہمان وہاں گئی اور 3 مرتبہ اسی طرح کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔
1995ء میں واحد ٹیسٹ پر مبنی ٹیسٹ سیریز ہو، 2002ء میں 2 ٹیسٹ میچ کی سیریز یا پھر 2013ء میں 3 ٹیسٹ میچ کی ٹیسٹ سیریز، ہر بار ہمیں کلین سوئپ کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اگر ان شکستوں میں 2019ء کا بھی اضافہ ہوگیا تو کونسی نئی بات اور حیران و پریشان ہونے والی بات ہوگئی۔
لیکن میں ان اعداد و شمار پر اپنا اور آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا جس پر بات کرنے سے کسی کو کچھ فائدہ نہیں، بلکہ میں تو ان ’مثبت ‘ پہلووں پر بات کرنا چاہتا ہوں جن پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔