پاکستان

پرویز مشرف کے منجمد بینک اکاؤنٹس سے رقم نکلوائے جانے کا انکشاف

موجودہ اور 2 سال قبل فراہم کی جانے والی بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات میں فرق کیوں ہے، جج کا پراسیکیوٹر سے استفسار
|

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کے منجمد بینک اکاؤنٹس میں نمایاں کمی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے بینظیر بھٹو قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی جائیداد ضبطگی کے معاملے پر سماعت کی۔

دوران سماعت فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے خصوصی پراسیکیوٹر اور ایس ایچ او عدالت میں پیش ہوئے اور پراسیکیوٹر کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے فارم ہاؤس، 5 پلاٹس اور منجمد بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

علاوہ ازیں غیر حاضری پر پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز اور ایس ایچ او عظمت نے عدالت سے معذرت کر لی۔

مزید پڑھیں: بینظیر بھٹو قتل کیس: ٹی ٹی پی کے 5 ملزمان کی ضمانت منظور

عدالت نے مرکزی ملزم پرویز مشرف کے منجمد بینک اکاؤنٹس میں نمایاں کمی پر برہمی کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ بینظیر بھٹو کیس کے چالان میں سابق صدر پرویز مشرف کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ 2016 میں منجمد کیے جانے والے بینک اکاؤنٹس میں کمی کیسے آگئی، بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے جواب طلب کر لیا۔

دوران سماعت جج نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے پرویز مشرف کے منجمد بینک اکاؤنٹس میں کمی کیسے ہوئی، 2 سال قبل فراہم کی جانے والی بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اور موجودہ اکاؤنٹس کی تفصیلات میں بتائی گئی رقم میں فرق کیوں ہے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ سابق صدرکے بینک اکاؤنٹس کی ٹرانزیکشن سے متعلق تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کریں اور انہیں مذکورہ تفصیلات خود پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔

علاوہ ازیں عدالت نے ایف آئی اے کے ایس ایچ او اور پراسیکوٹر کے وارنٹ گرفتاری بھی منسوخ کردیئے۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر بھٹو قتل کیس: ریویو بورڈ کا ملزمان کی نظربندی میں توسیع کا فیصلہ

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ 31 اگست 2017 کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کردیا گیا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے 9 سال 8 ماہ بعد راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 5 گرفتار ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اس کیس میں پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، حسنین گل، شیر زمان، رفاقت اور رشید احمد گرفتاری کے بعد سلاخوں کے پیچھے تھے، ان افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا جاتا رہا۔

بعد ازاں یکم ستمبر 2017 کو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس کے فیصلے میں انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے بری کیے جانے والے 5 ملزمان کو پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی درخواست پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں مزید 1 ماہ کے لیے حراست میں رکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں: بینظیر بھٹو کیس: پراسیکیوٹر کے قتل کے الزام میں گرفتار 2 ملزمان بری

اس کے بعد 29 ستمبر 2017 کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں سابق پولیس افسران کی سزا اور 5 ملزمان کی بریت کے حوالے سے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔