پاکستان

حکومت نے ایک ہفتے میں اسٹیٹ بینک سے 113 ارب روپے قرض لیا

جولائی 2017 سے لے کر 4 جنوری 2018 تک حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے 8 سو 35 ارب 70 کروڑ روپے قرض لیا، مرکزی بینک

کراچی: اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت نے صرف ایک ہفتے کے دوران ہی بجٹ کی معاونت کے لیے ایک سو 13 ارب روپے قرض لیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی ششماہی کے دوران ہدف سے کم آمدن ہونے کی وجہ سے بجٹ سپورٹ نے بہت زیادہ اضافہ دیکھا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 31 جولائی 2017 سے لے کر 4 جنوری 2018 تک حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے 8 سو 35 ارب 70 کروڑ روپے قرض لیا جبکہ گزشتہ برس یہی قرضہ 3 سو 53 ارب 40 کروڑ روپے تھا، تاہم دیکھا جائے تو اس میں 136 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مرکزی بینک کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے تک حکومتی قرض 7 سو 22 ارب روپے تھا تاہم 4 جنوری تک یہ قرض 8 سو 35 ارب 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔

مزید پڑھیں: موجودہ حکومت نے اب تک 22 کھرب 40 ارب روپے کا قرض لے لیا

اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی جانب سے لیے گئے قرض میں ایک سو 13 ارب روپے کا اضافہ صرف ایک ہفتے کے دوران ہی ہوا ہے۔

حکومت کا زیادہ تر انحصار اسٹیٹ بینک سے قرض پر ہوتا ہے تاہم یہ قرض اب بڑھ کر 36 کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے شیڈول بینکوں کی جانب سے قرض لینے کے فیصلے کو موخر کردیا ہے جس کی وجہ سے اب اس کے پاس مرکزی بینک سے قرض لینے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے کیونکہ حکومت اہداف کے مطابق آمدن حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے۔

مزید پڑھیں: ’حکومت بین الاقوامی قرض کیلئے منظور کی گئی شرائط واضح کرے‘

علاوہ ازیں حکومت رواں مالی سال کا تیسرا بجٹ بھی پیش کرنے جاری ہے تاکہ ملکی آمدن کو بڑھایا جاسکے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیرِخزانہ اسد عمر رواں ماہ 23 جنوری کو ضمنی بجٹ پیش کریں گے۔

اسد عمر کا ضمنی بجٹ سے متعلق کہنا تھا کہ یہ بجٹ حکومت کو اپنی آمدن بڑھانے میں مدد دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت کو گردشی قرضوں سے نمٹنے کیلئے قرضہ لینا پڑے گا

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر حکومت اسی اسی رفتار کے ساتھ قرض لیتی رہی تو رواں مالی سال کے دوران بجٹ خسارے کا ہدف 5.1 فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔

حکومت اس وقت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے رابطے میں بھی ہے تاہم اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کے معاملے میں عالمی مالیاتی ادارے کو پریشانی کا امکان ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے امداد جبکہ متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے امداد کی یقین دہانی سے حکومت بیلنس آف پیمنٹ کی ادائیگی کو برقرار رکھنے کے لیے ڈونرز کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔


یہ خبر 15 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی