پاکستان

لاہور ہائیکورٹ کے جج کے حق میں سابق چیف جسٹس کی اپیل مسترد

افتخار محمد چوہدری خود نہیں آئے، ان کے بیان خلفی کی کوئی اہمیت نہیں، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے لاہور ہوئیکورٹ کے موجودہ جج جسٹس محمد فرخ عرفان خان کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیان قلمبند کرنے کے لیے کمیشن بنانے کی اپیل مسترد کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 5 رکنی بینچ کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے اختیارات کمیشن کو نہیں دیں گے‘۔

جسٹس خان، جو کمرہ عدالت میں موجود تھے، کو آف شور جائیداد رکھنے پر ریفرنس کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: افتخار محمد چوہدری کو سمن جاری کرنا مناسب نہیں لگتا، چیف جسٹس

ان پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے جس پر انہیں فروری 2017 میں ایس جے سی کی جانب سے شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جسٹس خان کے حق میں بیان حلفی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’افتخار محمد چوہدری خود نہیں آئے ان کے بیان حلفی کی کوئی اہمیت نہیں‘۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن، جو اس کیس میں استغاثہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کا کہنا تھا کہ ’یہ کونسل کے اختیار میں ہے کہ وہ کمیشن بنائے یا نہیں‘۔

اپنے احکامات میں جوڈیشل کونسل نے باور کرایا کہ افتخار محمد چوہدری نے رضاکارانہ طور پر بیان حلفی جمع کروایا ہے تاہم وہ جرح کے لیے پیش نہیں ہورہے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جوڈیشل کونسل سے سینئر کونسل حامد خان کے ذریعے کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فرخ عرفان سے بیرون ملک اثاثوں کی منی ٹریل طلب

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ درخواست مسترد کرتے ہیں، بیان حلفی پر صرف اس وقت بات ہوگی جب سابق چیف جسٹس جرح کے لیے پیش ہوں گے‘۔

اپنے بیان حلفی میں جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس خان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'انہیں اپنے دور میں کسی بھی شخص، بار، جج یا لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور جسٹس خان غصے کے تیز بھی نہیں اور نہ ہی وکیلوں یا سرکاری اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں‘۔

سماعت کے دوران جوڈیشل کونسل نے پنجاب بار کونسل کے چند اراکین کے دستخط شدہ جسٹس خان کے حق میں خط کو بھی مسترد کیا۔

بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 15 جنوری 2019 کو شائع ہوئی