سینیٹرز نے بلیک لسٹ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے
اسلام آباد: ایوان بالا (سینیٹ) کے نمائندوں نے بیرون ملک سفر سے روکنے کے لیے استعمال ہونے والی ’بلیک لسٹ‘ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے حکام سے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت لوگوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈالے جاتے ہیں؟
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور مصطفیٰ کھوکھر اور مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک اور عائشہ رضا فاروق نے سوال کیا کہ لوگوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے کہاں سے ہدایات آتی ہیں اور کس قانون کے تحت یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے سربراہ سے ’خود کار‘ سفری پابندیوں پر سوالات
مصطفیٰ کھوکھر کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ ایگزٹ کنٹرول ایکٹ کے علاوہ کوئی قانون نہیں، جس کے تحت لوگوں کے بنیادی حقوق پر پابندی لگائی جائے۔
اس کے علاوہ حکومت، ریاست کو مطلوب افراد کے خلاف ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے طویل اور ناپسندیدہ عمل کو بائی پاس کرتے ہوئے 30 روز کی نئی عارضی سفری پابندی نافذ کر رہی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے عدالتی حکم پر بننے والی پروویژنل نیشنلٹی آئیڈینٹی فکیشن لسٹ کے تحت اب کسی فرد پر ایک ماہ کے لیے عارضی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
دوران اجلاس چیئرمین کمیٹی جاوید عباسی نے اس معاملے پر وزارت داخلہ، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈی جی امیگریشن اور پاسپورٹس سمیت متعلقہ حکام سے تفصیلی بریفنگ طلب کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کس اتھارٹی کی جانب سے پابندی عائد کی جارہی ہے اور کہاں سے لوگوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈالنے کی ہدایات آتی ہیں جبکہ اب تک کتنے افراد کو بلیک لسٹ کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی، دوحا جانے سے روک دیا
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ وزیر داخلہ، انسانی حقوق کی وزارت کے وزیر اور سیکریٹری جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بھی اس اجلاس میں شرکت کریں۔
علاوہ ازیں کمیٹی نے سیکسیشن سرٹیفکیٹس اور دیگر متعلقہ معاملات میں شہریوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک سادہ طریقہ کار فراہم کرنے سے متعلق مجوزہ قانون سازی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
جاوید عباسی نے اس معاملے کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ طریقہ کار آسان اور اراکین کے تحفظات دور ہونے چاہیے۔
یہ خبر 15 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی