پاکستان

بیرون ملک جائیداد کیس: ایف بی آر کا کام بہت سست روی کا شکار ہے، چیف جسٹس

آپ کے پاس تمام ڈیٹا ہے گھنٹوں میں کارروائی ہونی چاہیے، ایف بی آر کو شریفوں کا تھانہ کہا جاتا ہے، ریمارکس
|

اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد سے متعلق کیس میں ایف بی آر کی کارکردگی کی رفتار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ’آپ کا کام بہت سست روی کا شکار ہے، آپ کے پاس تمام ڈیٹا ہے گھنٹوں میں کارروائی ہونی چاہیے، ایف بی آر کو شریفوں کا تھانہ کہا جاتا ہے‘۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس اور جائیداد سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم، فیڈرول بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے عہدیداران پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی گئی۔

سماعت کے دوران ایف ابی آر کی ممبر آڈٹ اینڈ لینڈ ریونیو عائشہ نے عدالت کو بتایا کہ اب تک 27 کروڑ روپے سے زائد کی وصولی ہوئی ہے جبکہ ایف آئی اے نے 895 لوگوں کو ڈیٹا دیا تھا اور ایک ہزار 3سو 65 جائیداد کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: متحدہ عرب امارات میں مزید 96 پاکستانیوں کی جائیداد کی نشاندہی

ممبر نے بتایا کہ 76 کروڑ 80 لاکھ روپے کی وصولی کی توقع ہے اور 579 میں سے 360 لوگوں نے 484 جائیداد کے بارے میں ایمنسٹی لی ہے جبکہ کچھ لوگوں نے کرایہ ظاہر نہیں کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کام بہت سست روی کا شکار ہے، آپ نے ایکشن لینا ہے، آپ لوگوں کے پاس تو سارا ڈیٹا ہوتا ہے، آپ کو تو گھنٹوں میں ایکشن لینا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کو نوٹس دیں ،اگر ہم معاملہ نہ اٹھاتے تو آپ نے تو کام نہیں کرنا تھا، جس پر ایف بی آر کی ممبر آڈٹ نے کہا کہ 157 لوگ ہمارے پاس نہیں آئے، ان کی جائیداد کے لیے دبئی حکومت کو لکھا ہے۔

عدالت میں ایف بی آر کی رکن نے بتایا کہ ان افراد میں سے میں سے 579 کے بیان حلفی مل چکے ہیں جبکہ 27 افراد نے ادائیگیاں بھی کردی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جس طرح علیمہ خانم نے جائیداد ظاہر کی ہے، اس طرح کے اور بھی کیسز سامنے آئے ہیں، تاہم کچ ایسے ہیں جنہوں نے جائیداد ایمنسٹی میں ظاہر نہیں کی، 125 افراد ایسے ہیں جو پیش نہیں ہوئے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، اگر یہ معاملہ نہ اٹھاتے تو آپ سوتے ہی رہتے، اس پر چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ زیادہ تر لوگ پاکستان سے باہر ہیں اس لیے وصولی نہیں ہوپارہی۔

اس پر چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایف آئی اے بشیر میمن سے استفسار کیا کہ آپ کی ٹیم کیا کر رہی ہے، ہم نے ایف آئی اے کی ٹیم بنائی، کیا اس کی کارکردگی تسلی بخش ہے؟ جس پر بشیر میمن نے جواب دیا کہ ٹیم اپنے طور پر بعد اچھا کام کر رہی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے متعلقہ اداروں کو ایک ماہ کے دوران مزید پیش رفت رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

علاوہ ازیں ایف آئی اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ ادارے نے مزید 96 پاکستانیوں کی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں جائیداد کا سراغ لگا لیا۔

ایف آئی اے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ہزار 211 پاکستانیوں کی متحدہ عرب امارات میں 2 ہزار ایک سو 54 جائیدادیں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 780 افراد نے جائیداد سے متعلق بیان حلفی جمع کروا دیا ہے جبکہ 413 افراد نے ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کے علاوہ 167 افراد نے جائیداد ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو ظاہر کیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ، دبئی میں جائیداد بنانے والے 15 سو پاکستانیوں کو نوٹس بھیجنے کا فیصلہ

عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 79 افراد نے اپنی جائیداد ایف بی آر کو ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی جبکہ 97 افراد نے یو اے ای میں کسی بھی قسم کی جائیداد ہونے سے انکار کیا ہے۔

ایف آئی اے رپورٹ میں بتایا گیا کہ مزید 345 افراد کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ 61 افراد کی شناخت نہیں ہوسکی جبکہ ایک شخص فرار ہے۔

رپورٹ کے مطابق 5 افراد وفات پاچکے ہیں، 10 افراد اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہے جبکہ 418 افراد کے بیان حلفی ابھی موصول ہونا باقی ہے۔

عدالت میں جمع رپورٹ کے مطابق 79 افراد نے ایف بی آر کے پاس اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں جبکہ 97 افراد نے یو اے ای میں جائیداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔