موجودہ نظامِ تعلیم یا ہوم اسکولنگ؟
یہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کا موسم ہے۔ اس وقت تمام والدین اس کشمکش کا شکار ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے بہتر سے بہتر درسگاہ کا انتخاب کس طرح کیا جائے۔ جس پلیٹ فارم یا محفل میں دیکھیں، یہی موضوع زیرِ بحث ہے اور اسی کشمکش کے چرچے ہیں۔
ایک طرف نجی اسکولوں کی بڑھتی، ہوش ربا فیسیں اور کیمبرج و انٹرنیشنل نظامِ تعلیم سے ناواقفیت کا رونا ہے تو دوسری طرف سرکاری اور نجی دونوں سطح پر گرتے معیارِ تعلیم کا شکوہ ہے۔ ایسے میں والدین کے لیے یہ فیصلہ کرنا بے حد مشکل ہے کہ اپنے بچوں کے لیے کون سا اسکول اور کالج صحیح رہے گا۔
اس بارے میں والدین کا کہنا ہے کہ نجی سطح پر قائم اسکول ایک لگے بندھے نظریہ تعلیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان درسگاہوں کے طلبا کی زندگی کا واحد مقصد امتحانات میں کامیابی اور اعلیٰ گریڈز کا حصول ہے۔ یہ وہ محدود نکتہ نظر ہے جو ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں کو زندگی کے گراں قدر تجربات سے محروم کردیتا ہے اور ان کی زندگی محض اسکول، ٹیوشن، کلاس ورک، ہوم ورک اور امتحان کی تیاری کے لیے وقف ہوجاتی ہے۔
اس رویے سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ بالخصوص بچوں، نوجوانوں اور بالعموم گھرانوں کا طرزِ زندگی ہے۔ ذرا سوچیے اچھے گریڈز کی قیمت یہ ہو کہ نہ تو بچے اپنی نیند پوری کرپائیں، نہ باقاعدگی سے کھیلیں کودیں اور نہ ہی بھرپور طریقے سے زندگی کا لطف اٹھا پائیں۔