نئے پاکستان کے نئے قومی نشان
گلاب جامن ہماری پسندیدہ مٹھائی ہے۔ ہماری اس پسندیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے دوست مسلم میاں کہ ہاں جب بھی ولادت ہوتی ہے، وہ ہمارے پاس گلاب جامن کی ’ڈبیا‘ لے کر آتے ہیں جس میں 2 گلاب جامنیں لُڑھک رہی ہوتی ہیں۔
اس مٹھائی کے نرخ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ خرید کر کھائی جائے تو اس کی مٹھاس محسوس ہی نہیں ہوتی، چنانچہ اب مسلم میاں کے گھر اولاد اور ہمارے منہ میں گلاب جامن لازم وملزوم اور باہم مشروط ہوگئے ہیں۔ اسی لیے ہر برس ’لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری‘ کہ، ’یارب مِرے مسلم کو اس سال سال بھی بچہ دے۔‘
گلاب جامن سے اس رغبت کے باعث جب ہم نے سُنا کہ یہ پاکستان کی قومی مٹھائی قرار پائی ہے تو ہمیں اپنی من پسند شیرینی کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ اس خدشے کی وجہ بڑی سیدھی سی ہے۔ ہمارے ملک میں جس شے کے ساتھ بھی قومی لگا ہو اس کا حال دیکھ لیں، ہماری بات سمجھ میں آجائے گی، قومی زبان اردو، قومی کھیل ہاکی، قومی ایئرلائن، قومی اسمبلی، قومی یک جہتی۔ سمجھ گئے ناں، شکریہ۔
اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے سوچا کہ پاکستان میں قومی علامات وہی ہونی چاہئیں جن کی یہاں ضرورت پائی جاتی ہے اور جنہیں پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا، یعنی ہماری قومی نشانیاں وہ ہوں جو فخریہ کہہ سکیں ’آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا۔‘ یوں بھی یہ نیا پاکستان ہے سو اب ہماری علامتیں اور نشانات بھی نئے ہونے چاہئیں۔ کم ازکم اس طرح پاکستان نیا نیا لگنے لگے گا۔ امید ہے ہمارے مجوزہ نشانات اور علامتیں آپ کو پسند آئیں گی: