اسان جو مري، گورکھ ہل
’کبھی کبھی ایسا دن بھی ہوتا ہے جب میں دن میں 3 بار پہاڑ کی چوٹی تک جیپ میں سواریاں لے کر جاتا ہوں، لیکن بعض دن ایسے بھی آتے ہیں، جب میں اپنی گاڑی میں صبح سے شام تک انتظار کرتا ہوں کہ کوئی سیاح میری جیپ میں سوار ہو‘۔
ڈرائیور کے پاس 1000سی سی جیپ تھی، جس میں رد و بدل (الٹریشن) کروا کر اسے 1600سی سی بنایا گیا تھا، اور وہ اچھی خاصی رفتار سے اسے اُن خراب راستوں پر چلاتے ہوئے اپنی ڈرائیونگ اور اس علاقے سے متعلق مختلف باتیں بتا رہا تھا۔
وہ 13 سال سے اس راستے پر اپنی مہارت دکھا رہا ہے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حادثہ پیش آیا، ڈرائیور کا کہنا تھا کہ میری گاڑی اب بہت پرانی ہو چکی ہے، لیکن میں اسے اب بھی کراچی سے آنے والوں کی گاڑیوں سے زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں، کیونکہ ان پہاڑوں میں حادثہ صرف گاڑی کے پرانے ہونے سے ہی پیش نہیں آتا، بلکہ اصل وجہ ایسے راستوں پر ڈرائیونگ کی مہارت نہ ہونا ہوتی ہے‘۔
لعل شہباز قلندر کے شہر سیہون سے 70کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا علاقہ واہی پاندھی ہے، ہم اس علاقے میں بس سے پہنچے تھے، اس سے آگے ہم نے ’سندھ کے مبینہ مری‘ یعنی گورکھ ہل جانا تھا، جہاں سے جیپ ہماری سواری تھی۔
جو جیپ ہم نے لی تھی، اس کا ڈرائیور 15 سال سے اس علاقے میں ڈرائیونگ کر رہا تھا، اسی لیے وہ بہت سی باتیں ایسی بھی بتا رہا تھا، جن سے انٹرنیٹ نے واقفیت نہیں دی تھی، اس نے ہمیں بتایا کہ واہی پاندھی سے گورکھ ہل اسٹیشن تک دو طرح کی جیپیں جاتی ہیں، ایک چھوٹی جیپ جس میں 5 افراد بیٹھ سکتے ہیں، جبکہ بڑی جیپ 7 افراد کے لیے ہوتی ہے۔
واہی پاندھی سے 55کلومیٹر کا راستہ طے کرکے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے چھوٹی گاڑی کا کرایہ 6000 روپے جبکہ بڑی جیپ 7000 روپے میں بُک کی جا سکتی ہے، جبکہ دو سے ڈھائی گھنٹے میں یہ سفر پورا ہوتا ہے۔