وہ کہانیاں جو خالدہ حسین نہ لکھ سکیں
’کئی کہانیاں ایسی ہیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں، مگر یوں لگتا ہے جیسے میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسی طرح کاغذ پر آجائیں، لیکن بہر طور لکھوں گی۔‘
اب یہ ممکن نہیں رہا کہ خالدہ حسین اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں اور ان کے انٹرویو سے یہ سطور نقل کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کتنی ہی کہانیاں اَن کہی رہ گئی ہوں گی۔ کیسے خیال ہوں گے جو افسانوں میں نہیں ڈھل سکے۔
ممتاز افسانہ نگار اور کہانی نویس خالدہ حسین کی زندگی کی کہانی ہی تمام نہیں ہوئی بلکہ اردو افسانہ کا وہ باب بھی بند ہوگیا جسے انہوں نے اپنی بالغ نظری، اپنے گہرے عصری شعور اور تخیل کے اسرار سے آراستہ کیا تھا۔
خالدہ حسین نے یوں تو 1954ء میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں، لیکن ادبی حلقہ اور سنجیدہ قارئین 60ء کی دہائی میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے واقف ہوئے۔
ابتدائی دور کی کہانیاں چند غیرمعروف رسائل میں شائع ہوئی تھیں، اس وقت خالدہ 10ویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ تاہم بعد میں جب ان کی تخلیقات معروف جرائد کی زینت بنیں تو عظیم افسانہ نگار غلام عباس، قرۃ العین حیدر اور اس دور کے دیگر اہم ادیب اور نقاد خالدہ حسین کے فن اور اسلوب کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے طرزِ نگارش کو سراہا۔