دنیا کے امیروں سن لو! ماحولیاتی تبدیلی کسی کو نہیں چھوڑے گی


وجود انسانی اور بالخصوص پاکستانیوں کی بقا کو لاحق خطرے کا سب سے بڑا اشاریہ اسموگ سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتا ہے، جس نے حالیہ ہفتوں میں لاہور کو اپنی لپیٹ لیے رکھا ہے۔ گزشتہ چند سردیوں کے دوران پنجاب کے اس بڑے شہر میں ہوائی آلودگی زہریلی سطح تک پہنچ چکی ہے، وہی شہر جسے کئی لوگ ملک میں طاقت مرکز تصور کرتے ہیں۔ رواں سال یہاں صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ صحت ایمرجنسی پر غور کیا جانے لگا ہے۔
رواں ہفتے ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، لاہور میں ہوائی معیار کو جب بھی جانچا گیا تو اس میں آلودگی کی سطح قانونی حد سے 5 گنا زیادہ نوٹ کی گئی اور نتیجتاً یہاں کے شہری جن کی صحت پر اس کے نمایاں اثرات مرتب ہورہے ہیں انہیں محدود یا طویل عرصے تک اب وسیع پیمانے پر صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آلودگی کو بد سے بدترین بنانے کی وجوہات میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، کوڑے کو آگ لگانے، فصلوں کو کاٹنے اور جلانے کا عمل اور اینٹوں کے بٹھوں سے اٹھتا دھواں شامل ہیں۔
وقت کے ساتھ مغرب میں ابتدائی صنعت لگانے والوں نے اس مسئلے کو دنیا کے غیر مغربی حصوں (جدید نوآبادیت، سمجھتے ہیں نا!) میں ٹھیکے پر دے دیا اور اب چین جیسا ابھرتا سپرپاور کوئلے کی پیداوار کی کٹوتی کرنے اور ان تمام اقتصادی عوامل کو اپنے ملک سے باہر دیگر علاقوں میں ٹھیکے پر کروانے کی کوششیں کر رہا ہے جن کی وجہ سے وہاں کے شہری مراکز زہریلی ہوا میں ڈوب گئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام تباہ کاریوں کو پاکستان جیسے ملکوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ جو غیرملکی سرمایے کی بے ضابطہ آمد کے ذریعے ترقی پر پختہ عزم کیے بیٹھی ہے، اسے ابھی تک کو ماحولیاتی اعتبار سے کوئی فکر لاحق ہی نہیں۔ کام کرنے والے لوگوں کو اپنی زندگی قائم و دائم رکھنے سے مطلب ہے اور وہ اس بات سے یا تو انجان ہیں یا پھر بے فکر ہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کو ماحولیاتی اعتبار سے تباہ کن عوامل کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
یہاں لاہور کی ہی مثال لیجیے۔ ہر طرح سے خوشحال یہ شہرِ لاہور ہمیں تیسری دنیا کے بڑے شہروں کی طرز پر ایک مخصوص طرح سے بڑھتا نظر آئے گا مگر اس کے ساتھ ہی اشرافیہ کے حصار بند مخصوص علاقے (گھیٹو) بھی کہیں کہیں دکھائی دیں گے۔ عوامی صحت سے متعلق جب کچھ باتیں اشرافیہ کے سامنے ہوتی ہیں تو اس پر کوئی معنی خیز ردِعمل پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ ’ریت میں منہ چھپا دیا جاتا ہے‘۔ اس سے مراد تو یہی ہے کہ یا تو شہر چھوڑ دیا جائے یا پھر خود کو اشرافیہ کے گھیٹو تک محدود کردیا جائے اور گھیٹو کی چاردیواری کے اندر صاف ہوا میں سانس لینے کے لیے مطلوب مارکیٹ میں دستیاب کوئی ایک یا پھر تمام سامان خرید لیا جائے۔
یہ مضمون 11 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔