'طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات پاکستان کی خواہش ہے'
اسلام آباد: پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان حکومتِ افغانستان سے مذاکرات کرنے سے انکار کو ترک کردیں تاکہ 17 سال سے جاری تنازع کے حل کے سلسلے میں مذاکرات کیے جاسکیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات افغانوں کے مسائل حل کرنے کی ایک کوشش ہے، تاہم ہم چاہتے ہیں کہ وہ مل کر بیٹھیں کیونکہ جب تک وہ خود بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کریں گے بیرونی قوتیں کچھ خاص مدد نہیں کرسکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ابو ظہبی میں ملاقات کے لیے معاونت فراہم کی جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے بھی شرکت کی اور ان مذاکرات کو ’مثبت‘ اور ’نتیجہ خیز‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن و استحکام پورے خطے کیلئے کلیدی ہے، شاہ محمود قریشی
لیکن اس کے باوجود طالبان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے جو ان کے خیال میں محض کٹھ پتلی حکومت ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ پہلے امریکا کے ساتھ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے بارے میں کوئی حل نکل آئے اس کے بعد حکومت سے مذاکرات پر غور کیا جائے گا۔
دوسری جانب طالبان کی جانب سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار پر تنقید کرتے ہوئے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ جب تک یہ مذاکرات نہیں ہوں گے تنازع کا خاتمہ محض ایک خواب ہی رہے گا۔
اس سلسلے میں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے افغانستان کے اندر ہونے والے مذاکرات کے لیے پاکستان کے عزم کو دہرایا۔
مزید پڑھیں: امریکا، افغان طالبان مذاکرات پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے
اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان افغانستان میں پر امن حل کی کوششوں میں معاونت فراہم کررہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے کامیاب مذاکراتی حل تک پہنچا جاسکتا ہے‘۔
اس ضمن میں جب وزیر خارجہ سے افغانوں کے مابین مذاکرات کی راہ میں حائل سخت مشکلات کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ امریکا اور طالبان ایک ہی چھت تلے بیٹھیں گے لیکن ایسا ہوا‘۔
خیال رہے کہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ماہ افغانستان، چین ، ایران اور روس کا دورہ کیا تھا تاکہ ان ممالک کی قیادت کو پاکستان کی جانب سے 2015 میں رک جانے والے مذاکرات کی بحالی کے لیے کی گئی کوششوں سے آگاہ کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘
یاد رہے کہ جولائی 2015 میں ہونے والے مذاکرات اس وقت رک گئے تھے جب یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ افغان رہنما ملا عمر کا انتقال ہوچکا ہے۔