دنیا

’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

غیر ملکی فورسز کے انخلا کی بات جنگ جاری رکھنے اور مزید مواقع حاصل کرنے کا بہانہ ہے، چیف ایگزیکٹو عبداللہ

افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت پر طالبان کی جانب سے مذاکراتی عمل سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ 17 برس سے جاری تنازع کا خاتمہ ایک خواب ہی رہے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عبداللہ کا بیان طالبان کی جانب سے قطر میں امریکی حکام سے ہونے والے مذاکرات کے چوتھے مرحلہ منسوخ کرنے کے ایک روز بعد سامنے آیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ طالبان نے مذاکراتی عمل میں افغان حکومتی حکام کی موجودگی کو قطعی مسترد کیا۔

حالیہ چند ہفتوں میں مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کے حل کی کوششوں میں تیزی آئی ہے، یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی رپورٹس نے بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔

امریکا طالبان قیادت پر افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے لیکن طالبان نے خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کی شمولیت سے متعلق درخواست کو بھی رد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’افغانستان میں 17 سالہ جنگ کا مرکزی کردار امریکا رہا اور کابل محض ’کٹھ پتلی‘ حکومت ہے۔

مزید پڑھیں : افغان طالبان نے قطر میں امریکا کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کردیئے

عبداللہ نے کابل میں آئین کے 15 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تقریب میں بتایا کہ ’ ایسا امن معاہدہ جس میں ہمارے شہریوں کے وہ حقوق جنہیں ہم نے کئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے ،ان کا احترام نہیں کیا جاتا تو ایسا معاہدہ صرف ایک خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہوگا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ غیر ملکی فورسز کے انخلا کی بات، جنگ جاری رکھنے اور مزید مواقع حاصل کرنے کا بہانہ ہے‘۔

طالبان رہنما نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے مذاکرات کے چوتھے مرحلے میں امریکی انخلا، قیدیوں کے تبادلے اور طالبان رہنماؤں کی نقل و حمل پر عائد پابندی ہٹانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی حکام کو 25 ہزار قیدی رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بدلے میں وہ 3 ہزار افراد کو رہا کریں گے لیکن امریکی حکام اس حوالے سے بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

افغانستان میں جاری جنگ امریکا کی طویل ترین بیرون ملک مداخلت ہے جس کے نتیجے میں واشنگٹن کے ایک کھرب ڈالر خرچ اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا، افغان طالبان مذاکرات پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے

عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ 2001 میں امریکی فورسز کی جانب سے طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد سے اب تک طالبان نہیں بدلے۔

انہوں نے پاکستان پر طالبان کو تحفظ دینے کا الزام دیتے ہوئے کہا کہ’ ہم نے طالبان میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور جو ملک ان کی حمایت کرتا ہے انہوں نے بھی بدقسمتی سے ہمارے لیے پالیسی تبدیل نہیں کی‘۔

خیال رہے کہ پاکستان افغانستان کے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور ان کا موقف ہے کہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

افغان حکومت کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ مذاکرات میں امریکی فوجوں کے انخلا کے اعلان اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے کے بعد ایک عبوری انتظامیہ کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے، اس انتظامیہ کو ’ امن حکومت ‘ کا نام دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ امن حکومت کے تحت طالبان کے مکمل انضمام اور انتخابات کے انعقاد تک تمام فریقین ایک ہی انتظامیہ کی نگرانی میں ہوں گے۔

تاہم اشرف غنی نے کسی عبوری حکومت کے قیام کی شدید مخالفت کی ہے ، عبداللہ نے بھی افغان شہریوں کو موجودہ حکومت کی حمایت کرنے کی درخواست کی ہے۔

مزید پڑھیں : افغان مفاہمتی عمل کیلئے زلمے خلیل زاد 4 ممالک کے دورے پر روانہ

عبداللہ نے سیاسی اعداد و شمار کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ’ وہ کہتے ہیں کہ ماضی کے طالبان نہیں اور انہوں نے سبق سکھ لیا ہے اور ایک مشترکہ حکومت کے حق میں ہیں لیکن بھر وہ کچھ افراد کے پاس جاتے ہیں اور انہیں بڑا مانتے ہیں جو ہماری قومی مفاد کے خلاف ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کمزور ہے یا اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان میں جولائی میں انتخابات ک تیاری کی وجہ سے مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں، اکثر افغان شہریوں کا ماننا ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہوگیا تو انتخابات منسوخ ہوجائیں گے۔

اشرف غنی سمیت صدارتی امیدواروں نے مختلف گروپوں کے رہنماؤں کے ساتھ اتحاد سے متعلق کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا۔