’ہم دونوں میاں بیوی بچوں کی وجہ سے بہت تکلیف اور اذیت میں رہتے ہیں‘، وہ روتے ہوئے مجھے بتارہی تھیں۔
گاڑی کے ہارن کی آواز سُن کر وہ باہر چلی گئیں۔
’فریحہ! ڈرائنگ روم میں آجاؤ، میں تمہیں اپنے ہزبنڈ سے ملواتی ہوں‘، مسز خان نے مجھے آواز دی۔
فریحہ ڈرائنگ روم کی طرف آہستہ آہستہ بڑھی۔ وہاں پہنچ کر اس کی پریشانی حیرانی میں بدل گئی۔ مسز خان اپنے ہزبنڈ کا تعارف کروانے لگ گئیں۔ چہرے پر ہلکی سی داڑھی، سفید شلوار قمیض میں ملبوس اس شخص کو فریحہ لاکھوں انسانوں کے درمیان بھی پہچان سکتی تھی۔
’میں اب چلتی ہوں‘، مجھے محسوس ہوا کہ میری چال کے علاوہ آواز بھی لڑکھڑا رہی تھی۔
اس کے قدم گاڑی کی طرف بڑھے کہ اچانک ایک آواز عقب سے اُبھری۔
’فری! میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘ اس آواز کی گونج ابھی تک میری سماعت میں تھی۔ غیر محسوس انداز میں گاڑی میں بیٹھ کر اپنا وزیٹنگ کارڈ میں نے فرش پر پھینک دیا اور دروازہ زور سے بند کردیا۔ ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔ میں نے سیٹ سے اپنا سر ٹکا دیا۔ ماضی کے تمام واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگے۔ میرا چہرہ بھیگ رہا تھا۔
’میں نے ان 10 سالوں میں تمہیں بہت تلاش کیا۔۔۔‘
میرے آفس میں شہریار میرے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔ اس کی آواز بھر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دکھ ہی دکھ تھا، تکلیف ہی تکلیف تھی۔
’میں ان 10 سالوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی تمہیں نہیں بھولا۔‘ (اوہ میرے خدایا۔۔۔ میں سوچا کرتی تھی کہ اُس نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی یاد نہیں کیا ہوگا۔)
’جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو تم مجھے بہت یاد آئیں۔‘ وہ رکا اور گہرا سانس لیا۔
’جب میرا بیٹا پیدا ہوا تو مجھے اللہ بہت یاد آیا۔‘ وہ پچھتاوے کی آگ میں جل رہا تھا۔
’میں نے اللہ سے بے تحاشا معافی مانگی، لیکن فری میرے لیے توبہ کا دروازہ ابھی بھی بند ہے۔‘
شہریار کی کی آنکھوں میں فریحہ کو ہلکی سی نمی نظر آئی۔ وہ مایوسی اور ناامیدی کے سفر پر گامزن نظر آرہا تھا۔
’فری! میری توبہ کا دروازہ تم کھولو گی، جب تم مجھے معاف کردو گی تو مجھے اللہ بھی معاف کردے گا۔‘ اُس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔
’جو میں تمہیں دینا چاہتا تھا، اللہ نے وہ مجھے دیا۔۔۔ ذہنی انتشار، ذہنی ابتری، ذہنی بے سکونی۔۔۔‘ وہ اب ہچکیوں میں رو رہا تھا۔
مجسم شیطان اب مجسم انسان میں بدل رہا تھا کیونکہ اب اسے رحمان یاد آرہا تھا۔
’میں تمہاری بددعاؤں کے حصار میں ہوں۔ فری تم مجھے معاف کردوگی نا؟‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
'شہریار آفس سے جاچکا تھا۔ میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ میں شہریار کو بتانا چاہتی تھی کہ میں نے اسے کوئی بددعا نہیں دی بلکہ شہریار میں تو تمہاری شکر گزار ہوں کہ تمہارے ایک دن کے سچ نے مجھے اپنی ہستی کی پہچان کرادی۔ میں نے اپنی ذات کی تمام خوبیوں کی صرف تمہاری وجہ سے ہی تو پہچانا ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر صرف تمہاری وجہ سے ہی تو طے کررہی ہوں۔' فریحہ نے پُرسکون ہو کر اپنی آنکھیں موندھ لیں۔
یہ حقیقی کہانی نہیں ہے، بلکہ لکھاری نے خود تخلیق کی ہے۔