نقطہ نظر

افسانہ: انسان سے شیطان اور پھر شیطان سے واپس انسان بننے کی کہانی

فائنل امتحانات نزدیک آرہے تھے اور شہریار کی ٹینشن میں اضافہ ہو رہا تھا چنانچہ اب وہ اس کھیل کا ڈراپ سین کرنا چاہتا تھا۔

دنیاوی نعمتیں اگر بن مانگے دستک دینے لگیں اور آسائشیں قطار در قطار ہاتھ باندھے کھڑی ہونے لگیں تو انسان کے پاؤں خاک پر نہیں ٹکتے اور اس کا دماغ ساتوں آسمان کی سیر کرنے لگتا ہے۔ دوسرے انسان اُسے چیونٹی کی مانند نظر آتے ہیں، جنہیں وہ بدمست ہاتھی کی طرح کچل دینا چاہتا ہے۔ شہریار کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔

اپنے والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد، جسمانی صحت، ذہانت اور مردانہ وجاہت سے مالا مال، ہر کلاس میں اول آتا رہا ہے۔ اس کے والدین اور اساتذہ اس پر فخر کرتے ہیں اور کلاس فیلوز اس پر رشک کرتے ہیں۔ "The only, one and he is Shaheryar" جیسے جملوں نے اسے بد حد خود پسند بنادیا ہے۔ زندگی کے ہر مقام پر کامیابی حاصل کرنا وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔ میٹرک بورڈ میں ٹاپ کرکے اس نے لاہور کے بہترین کالج میں داخلہ لیا، جہاں مخلوط تعلیم رائج ہے۔ مستقبل میں اس کا ارادہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کا ہے۔

آج شہریار کے پہلے Internal Test کا رزلٹ نکلنا ہے۔ اس نے اپنے ہر سبجیکٹ پر بہت محنت کی ہے اور اسے 100 فیصد امید ہے کہ وہی کلاس میں پہلے نمبر پر آئے گا۔ لیکن جب کلاس میں رزلٹ کا اعلان ہوا تو شہریار کو بے حد حیرت ہوئی کیونکہ اس کا نام پہلی کے بجائے دوسری پوزیشن کے لیے پکارا گیا اور فرسٹ پوزیشن کے لیے کسی فریحہ درانی کا نام پکارا گیا۔

’یہ کون محترمہ ہے؟‘ شہریار کے دوست طاہر نے اسے باقاعدہ کہنی مار کر پوچھا۔

’میں ابھی بھی شاک میں ہوں۔ کیا کوئی مجھ سے بھی آگے نکل سکتا ہے، کیا کوئی مجھے بھی مات دے سکتا ہے؟‘ شہریار فریحہ سے بُری طرح جیلس ہوا۔

کلاس کے بعد شہریار نے فریحہ کا بغور جائزہ لیا۔ دبلی پتلی لڑکی، عام سے نین نقش، سانولارنگ، آنکھوں پر لگے گلاسسز کے پیچھے بے پناہ ذہانت، لیکن اس کے سراپے کی سب سے زیادہ نمایاں چیز اس کی چال تھی۔ بے ہنگم، بے ڈول، وہ لڑکھڑا کر چلتی تھی۔

’لنگڑی کہیں کی، دیکھنا اگلی دفعہ میں ہی فرسٹ آؤں گا۔‘ شہریار نے سوچا۔

لیکن کلاس میں نمبر ون آنے کا خواب، خواب ہی رہا۔ شہریار کی ساری محنت اور لگن اس وقت اکارت چلی جاتی جب فریحہ ٹاپ پر ہوتی۔ اگرچہ شہریار نے ریفرنس بکس، نوٹس بنانے کا انداز، کوچنگ سینٹرز غرض کہ ہر چیز کو بدل کر دیکھا لیکن جب کلاس میں اساتذہ صرف اس کے اسائنمنٹس اور پیپرز کی تعریف کرتے اور اس کی ہمت اور بے پناہ اعتماد بے حد سرہاتے تو اس کے دل پر چھریاں چل جاتیں۔ حال تو یہ تھا کہ فائنل ائیر کے امتحانات میں فریحہ نے صرف کالج میں ٹاپ نہیں کیا بلکہ بورڈ میں بھی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی۔

’ہمارے ادارے کے لیے فریحہ درانی باعثِ فخر ہے۔ جنہوں نے کبھی بھی اپنی معذوری کو اپنی مجبوری اور محرومی نہیں بنایا۔ فریحہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے انہیں استعمال کرنے کا گر جانتی ہے۔‘ پرنسپل صاحب نے گولڈ میڈل پہناتے ہوئے اس کی بے پناہ تعریف کی۔

اب شہریار کو اپنا وجود گم ہوتے ہوئے محسوس ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ جہاں فریحہ کھڑی تھی وہاں تو صرف اس کی جگہ تھی۔ وہ حسد اور جلن کے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔

’شرم کر یار ایک لڑکی سے مات کھا رہا ہے۔‘ طاہر نے شہریار کو ’غیرت‘ دلائی۔

’تو پھر کیا کروں؟ B.Com میں وہ پھر میرے مدِمقابل ہے‘ شکستگی میرے لہجے سے ظاہر تھی۔

’وہ اپنے جسمانی عیب کے باوجود بے حد پُراعتماد ہے۔ کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہے اور بے حد پرسکون رہتی ہے۔‘ شہریار نے دل ہی دل میں اس حقیقت کو تسلیم کیا۔

’اگر تم اس کو ذہنی طور پر ڈسٹرب کردو تو اس کا دھیان پڑھائی سے ہٹ جائے گا۔‘ طاہر نے شہریار کو اکسایا۔

’مگر میں ذہنی طور پر اسے کیسے ڈسٹرب کروں‘، شہریار نے سوالیہ نظروں سے طاہر کی طرف دیکھا۔

’اگر تم اسے اپنی محبت کا یقین دلاؤ تو۔۔۔۔‘

’پاگل ہوگئے ہو، محبت کرنے کے لیے وہ لنگڑی ہی رہ گئی ہے۔‘ شہریار نے فوراً طاہر کی بات کاٹی۔

’او یار! تُو کون سا اس سے سچی محبت کرے گا۔ بس صرف مذاق کر اور اسے تھوڑی سے ذہنی ٹینشن دے۔ پھر دیکھ تماشا۔ وہ معذور ہے اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک وجہیہ لڑکا اس کی چاہت بھی کرسکتا ہے۔ یہی سوچ اسے پاگل کردے گی۔‘ طاہر نے شہریار کو راہ دکھائی۔

اب شہریار کے ذہن میں نئی سوچ، نیا خیال آیا۔ اب کھیل شروع ہوچکا تھا۔

ذہنی سکون سے ذہنی ابتری کی طرف

عروج سے زوال کی طرف

جیت سے ہار کی طرف

بلندی سے پستی کی طرف

انسانیت سے شیطانیت کی طرف

شہریار فریحہ کو اپنی جھوٹی چاہت کا یقین کیسے دلاتا۔ اسے فریحہ سے دوستی کرنا تو دُور کی بات، برداشت کرنا بھی مشکل لگتا تھا۔ تاہم اپنا خیال فریحہ تک پہنچانے کے لیے اس نے کاغذ کے ایک ٹکرے کو اپنا پیام بر بنایا۔

’فری تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟ باتیں کیا کرو یار۔‘

یہ پہلا جملہ تھا جو ایک چھوٹے سے کاغذ پر لکھ کر خوب اچھی طرح تہہ لگا کر شہریار نے اس کی فائل میں رکھا۔ اس کی ذہنی سوچ کو بدلنے کے لیے ہر ہفتے میں ایک پیغام اسے ضرور بھیجتا۔

’فری! تم مسکراتی ہوئی زیادہ اچھی لگتی ہو۔‘

’فری ڈیئر! اتنے ڈل کلر کیوں پہنتی ہو، تم پر ریڈ کلر زیادہ سوٹ کرتا ہے، یہی پہنا کرو۔‘

’اپنے گلاسز بدل ڈالو، یہ تمہیں سوٹ نہیں کرتے۔‘

’کیا تمہیں چوڑیوں کی کھنک اچھی نہیں لگتی؟‘

شروع شروع میں اس نے ان جملوں کو قابلِ عمل نہیں سمجھا لیکن کچھ عرصے میں اس میں حیرت انگیز تبدیلی آنے لگی اور اس تبدیلی کو اس کی دوستوں نے بہت سراہا۔

’اگر تم اپنے بالوں کو کھول کر یو شیپ میں کٹوالو تو مجھے زیادہ اچھی لگو گی۔‘

چند دنوں بعد اس کا ہیئر کٹ یوشیپ میں بدل چکا تھا۔

ان جملوں کے علاوہ شہریار اکثر محبت بھرے کارڈز اور سرخ گلاب بھی فریحہ کی فائل میں رکھ دیتا جو اس کے مصنوعی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتے۔ کچھ عرصے سے میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ جب بھی میری طرف دیکھتی تو ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے چہرے کا احاطہ کرتی اور پھر وہ اپنی نظریں جھکا لیتی۔

فائنل امتحانات نزدیک آرہے تھے اور شہریار کی ٹینشن میں اضافہ ہو رہا تھا چنانچہ اب وہ اس کھیل کا ڈراپ سین کرنا چاہتا تھا۔

’کل 2 بجے تم کیفے ٹیریا میں مجھے ملنا‘ یہ آخری پیغام تھا جو شہریار نے فریحہ کو بھیجا۔ ٹھیک 2 بجے وہ کیفے ٹیریا میں داخل ہوئی۔ پھر وہ شہریار کی ٹیبل کی طرف آہستہ آہستہ بڑھی۔ آج اس کی چال کی لڑکھڑاہٹ میں نمایاں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ شہریار کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی اور شہریار نے اس کا بغور جائزہ لینا شروع کیا۔

اس کے کپڑوں کا ریڈ کلر بہت نمایاں ہو رہا تھا۔ اس کی دونوں کلائیاں سرخ چوڑیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس کے ریشمی بال کھلے ہوئے تھے۔ آج اس کی آنکھوں پر گلاسز بھی نہیں تھے۔ اس کا چہرہ اس کی اندرونی سوچ کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا۔ وہ مسلسل شہریار کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شہریار کی ہی شبہیہ تھی۔ وہ چاہے جانے کے زعم میں مبتلا تھی اور خواب و خیال کے سفر پر گامزن تھی۔ وہ شفاف آئینے کی مانند اس کے سامنے تھی جس میں چاروں طرف صرف شہریار کا ہی عکس تھا۔

وہ شہریار کی طرف سے کسی خوبصورت جملے کی منتظر تھی جو اسے مستقبل کی نوید دیتا۔ اس کی آنکھوں میں کیا تھا۔۔۔؟ محبت کا سارا جہاں آباد تھا۔

’کیا تم پاگل ہو؟ تم میرا خواب کیسے دیکھ سکتی ہو؟ شہریار نے اذیت کے نشتر اس کے وجود میں اتارنے شروع کیے۔

اب اس کی آنکھوں میں حیرت اُمڈ رہی تھی۔

’مرد کو عورت کا مکمل حسن چاہیے۔ وہ عورت میں ذرا سی کمی، معذوری اور Deformity کو قبول نہیں کرتا‘، شہریار تلخی سے بولا۔

اس کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا، جیسے شامِ غم اتر رہی ہو۔

’تم تو اپنے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل نہیں سکتی اور زندگی کی راہ میں تم میری ہم قدم بننا چاہتی تھی‘، شہریار کی زبان سے لفظ آگ بن کر اسے جلا رہے تھے، راکھ کا ڈھیر بنا رہے تھے۔

اب شہریار مجسم انسان سے مجسم شیطان بن رہا تھا۔

پھر اس نے لائٹر سے سگریٹ کو جلایا اور ایک گہرا کش لے کر سارا دھواں اس پر چھوڑ دیا۔ وہ دھوئیں میں گم ہورہی تھی۔ اس کے بال، اس کی آنکھیں، اس کا چہرہ، اس کا وجود دھواں دھواں ہورہا تھا۔

شہریار جو فریحہ کو دینا چاہتا تھا اس نے دے دیا۔

ذہنی انتشار، ذہنی ابتری، ذہنی بے سکونی۔

رات کے 12 بجے ہیں یا شاید ایک بجا ہے، فریحہ کو بالکل اندازہ نہیں ہے۔ کتنے گھنٹوں سے وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ اس کا سر گھٹنوں پر ٹکا ہے۔ اس کے بال کندھوں پر بکھرے ہوئے ہیں۔ اس کے پاس ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیوں کا ڈھیر پڑا ہے، جنہیں وہ کلائی سے اتار کر جانے کتنی دیر سے توڑ رہی ہے۔ جس کے سبب اس کی انگلیوں پر خون کے قطرے جم سے گئے ہیں۔ آنسوؤں کی برسات مسلسل اس کا چہرہ بھگورہی ہے۔

’آج میں نے شہریار کی آنکھوں میں کیا دیکھا؟ اپنے لیے حقارت، نفرت، تمسخر۔۔۔ جیسے کوڑے کا ڈھیر ہوں اور اس پر مکھیاں بھنبنا رہی ہوں۔‘ فریحہ نے اپنی کتابیں کھولیں اور اس کے لفظوں کی سوغات ناگ بنے ڈس رہے تھے۔

’تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو باتیں کیا کرو یار۔‘

’فری! تم مسکراتی ہوئی زیادہ اچھی لگتی ہو۔‘

’کیا تمہیں چوڑیوں کی کھنک اچھی نہیں لگتی۔‘

’ریڈ کلر زیادہ سوٹ کرتا ہے یہی پہنا کرو۔’

اس کی آنکھوں میں شہریار کی شبہیہ اُبھر اُبھر کر ڈوب رہی تھی۔ اسے ہر صفحے پر، ہر لفظ اور ہر حرف میں شہریار نظر آرہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اسے کوئی بددعا دے دے مگر اسے کوئی بددعا یاد نہیں آرہی تھی۔

’میں کیسے اسے بددعا دے سکتی تھی۔ اگر میں اس کی چاہ نہیں تھی تو وہ تو میری پہلی آرزو، میرا پہلا خواب تھا۔ میرے دل پر کنندہ اولین نقش تھا۔ میں کیسے اس کے ایک دن کے سچ پر ایمان لے آتی جبکہ میں کتنے عرصے سے اس کے جھوٹ کے الیوژن میں گرفتار تھی۔ فریحہ خود سے ہی باتیں کرنے لگی۔

موت کی حقیقت اور

زندگی کے سپنے کو

بحث گو پرانی ہے

پھر بھی اک کہانی ہے

اور کہانیاں بھی تو

وقت سے عبارت ہیں

لاکھ روکنا چاہیں

وقت کو گزرنا ہے

امتحانات کے فوراً بعد فریحہ اپنے بھائی کے پاس اسلام آباد چلی گئی۔ رزلٹ آنے کے بعد اس نے قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اپنے گھر اور والدین سے دُور رہنا اس کے لیے تکلیف دہ ضرور تھا لیکن وہ لاہور میں رہتے ہوئے شہریار کی یاد کی اذیت نہیں جھیل سکتی تھی۔ اس نے یونیورسٹی کے ہنگاموں میں اپنے آپ کو گم کردیا۔

انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد فریحہ نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور اسے بھی پاس کرلیا۔ وہ دن فریحہ کے لیے بہت خوشی کا دن تھا جب اس کی پہلی پوسٹنگ فیصل آباد میں ہوئی۔ اس کے والدین کے لیے بھی یہ لمحہ فخریہ تھا۔ کامیاب زندگی گزارنے کے تمام لوازمات فریحہ کے قدموں میں ڈھیر تھے۔ بنگلہ، گاڑی، نوکر چاکر، اعلیٰ عہدہ۔۔۔ بھلا اس نے کب ان تمام چیزوں کی تمنا کی تھی۔

’مجھے تو چاہے جانے کی خواہش تھی۔ مجھے تو دوستی، پیار اور خلوص کی تمنا تھی‘۔ فریحہ نے بالاخر شہریار کو بھلانے کے لیے اللہ کی یاد کا سہارا لیا۔

راحتیں ہوائیں ہیں

چاہتیں صدائیں ہیں

کیا کبھی ہوائیں بھی

دسترس میں رہتی ہیں

کیا کبھی صدائیں بھی

کچھ پلٹ کے کہتی ہیں

زندگی کے ہنگاموں میں گم ہوجانے کے باوجود کبھی کبھار شہریار اسے رات کے پچھلے پہر یاد آجاتا۔ برستی بارش کی بوندوں کو دیکھ کر فریحہ کو اس کا خیال ستاتا تو وہ سوچتی کہ کیا کسی لمحے، میں بھی اسے یاد آتی ہوں گی؟

وہ گزرے سالوں کا حساب کتاب کرنے بیٹھ جاتی۔ اب یقیناً اس نے شادی کرلی ہوگی۔ وہ اپنی بیوی سے کتنی محبت کرتا ہوگا۔ اب وہ ایک بیٹی کا باپ بن چکا ہوگا۔ اب اس کی بیٹی کا ایک بھائی آچکا ہوگا۔ اب اس کے دونوں بچے اسکول جاتے ہوں گے۔

فریحہ کے دل کا موسم تو جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ لیکن وقت گزر رہا تھا۔ دن رات میں، مہینے سالوں میں بدل رہے تھے۔

پیار بھی نہیں رہنا

اور پیار کا دکھ بھی

آنسوؤں کے دریا کو

ایک دن اترنا ہے

خواہشوں کو مرنا ہے

وقت کو گزرنا ہے

تقریباً 10 سال بعد فریحہ کا ٹرانسفر لاہور میں ہوا۔ اگرچہ وہ اس شہر ہرجائی میں آنا تو نہیں چاہتی تھی لیکن اس کا رزق اسے یہاں کھینچ لے آیا۔

لڑکی چاہے قوت گویائی سے محروم ہو یا آنکھوں کی بینائی سے، چاہے وہ سننے یا چلنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو، رفتہ رفتہ اس کا وجود اس کے خود ساختہ قہقہوں میں یا بے ساختہ آنسوؤں میں دفن ہوتا چلا جاتا ہے۔ تنہائی کائی بن کر اس کے وجود پر جم جاتی ہے۔ اس کی آنکھیں بے خواب ہوجاتی ہیں، دل کی دھڑکنیں گم ہوجاتی ہیں اور الفاظ جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں، وہ زندگی نہیں گزارتی بلکہ زندگی اسے گزارتی ہے اور فریحہ کے ساتھ بھی اب یہی کچھ ہورہا تھا۔

دن آفس میں گزرتا، سہہ پہر گھر میں اور شام قرآن انسٹی ٹیوٹ میں گزرتی۔ قرآن انسٹی ٹیوٹ میں وہ قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے جاتی اور پھر قرآنی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کرتی۔

اس کی زندگی میں راحت اور سکون بڑھ رہا تھا اور اس کی ذہنی سوچ میں اب ایک ٹھہراؤ آگیا تھا۔

اسی انسٹی ٹیوٹ میں فریحہ کی ملاقات مسز خان سے ہوئی۔ مسز خان سادہ اور پُرخلوص خاتون تھیں اور سچ پوچھیے تو ساری چاہت اور محبت انہیں کی جانب سی تھی۔ وہ جب بھی فریحہ کو ملتیں تو ایک بات ضرور کہتیں، ’فریحہ! میرے بچوں کے لیے دعا کیا کرو۔۔۔‘

ایک دن فریحہ ان سے پوچھ ہی بیٹھی کہ آپ کیوں مجھے ہمیشہ کہتی ہیں کہ میرے بچوں کے لیے دعا کیا کرو۔

میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئیں۔

’تم میرے گھر آؤ، پھر میں تمہیں بتاؤں گی۔‘ مسز خان کی طرف سے مجھے اپنے گھر بلانے کا اصرار بڑھتا ہی چلا گیا۔ میں جتنا انکار کرتی وہ اتنا ہی اصرار کرتیں۔ بالآخر ایک دن میں ان کے گھر چلی گئی۔

ڈرائنگ روم میں تھوڑی دیر بٹھا کر وہ مجھے بچوں کے بیڈروم تک لے گئیں۔

’اندر آجاؤ فریحہ‘ انہوں نے مجھے راستہ دکھایا۔

میں اندر جاکر حیران کم اور پریشان زیادہ ہوگئی۔ مسز خان اپنے بچوں کے نزدیک بیڈ پر بیٹھ گئی۔ ان کے دونوں بچے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور تھے۔

’میری بیٹی 6 سال کی ہے اور بیٹا 5 سال کا۔ مگر دونوں کے ذہن 6 ماہ کے بچے کے برابر ہیں۔ دونوں کروٹ بھی نہیں بدل سکتے۔ دونوں بچوں کو بیڈ پر ہی کھانا کھلایا جاتا ہے۔ میں بیٹی کو کھانا کھلاتی ہوں اور میرے شوہر بیٹے کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اگر بچوں پر مکھی بھی بیٹھ جائے تو یہ اڑا نہیں سکتے۔ اگر جسم کے کسی بھی حصے پر خارش ہو تو یہ خارش بھی نہیں کرسکتے۔‘

’ہم دونوں میاں بیوی بچوں کی وجہ سے بہت تکلیف اور اذیت میں رہتے ہیں‘، وہ روتے ہوئے مجھے بتارہی تھیں۔

گاڑی کے ہارن کی آواز سُن کر وہ باہر چلی گئیں۔

’فریحہ! ڈرائنگ روم میں آجاؤ، میں تمہیں اپنے ہزبنڈ سے ملواتی ہوں‘، مسز خان نے مجھے آواز دی۔

فریحہ ڈرائنگ روم کی طرف آہستہ آہستہ بڑھی۔ وہاں پہنچ کر اس کی پریشانی حیرانی میں بدل گئی۔ مسز خان اپنے ہزبنڈ کا تعارف کروانے لگ گئیں۔ چہرے پر ہلکی سی داڑھی، سفید شلوار قمیض میں ملبوس اس شخص کو فریحہ لاکھوں انسانوں کے درمیان بھی پہچان سکتی تھی۔

’میں اب چلتی ہوں‘، مجھے محسوس ہوا کہ میری چال کے علاوہ آواز بھی لڑکھڑا رہی تھی۔

اس کے قدم گاڑی کی طرف بڑھے کہ اچانک ایک آواز عقب سے اُبھری۔

’فری! میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔‘ اس آواز کی گونج ابھی تک میری سماعت میں تھی۔ غیر محسوس انداز میں گاڑی میں بیٹھ کر اپنا وزیٹنگ کارڈ میں نے فرش پر پھینک دیا اور دروازہ زور سے بند کردیا۔ ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔ میں نے سیٹ سے اپنا سر ٹکا دیا۔ ماضی کے تمام واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے چلنے لگے۔ میرا چہرہ بھیگ رہا تھا۔

’میں نے ان 10 سالوں میں تمہیں بہت تلاش کیا۔۔۔‘

میرے آفس میں شہریار میرے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔ اس کی آواز بھر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دکھ ہی دکھ تھا، تکلیف ہی تکلیف تھی۔

’میں ان 10 سالوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی تمہیں نہیں بھولا۔‘ (اوہ میرے خدایا۔۔۔ میں سوچا کرتی تھی کہ اُس نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی یاد نہیں کیا ہوگا۔)

’جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو تم مجھے بہت یاد آئیں۔‘ وہ رکا اور گہرا سانس لیا۔

’جب میرا بیٹا پیدا ہوا تو مجھے اللہ بہت یاد آیا۔‘ وہ پچھتاوے کی آگ میں جل رہا تھا۔

’میں نے اللہ سے بے تحاشا معافی مانگی، لیکن فری میرے لیے توبہ کا دروازہ ابھی بھی بند ہے۔‘

شہریار کی کی آنکھوں میں فریحہ کو ہلکی سی نمی نظر آئی۔ وہ مایوسی اور ناامیدی کے سفر پر گامزن نظر آرہا تھا۔

’فری! میری توبہ کا دروازہ تم کھولو گی، جب تم مجھے معاف کردو گی تو مجھے اللہ بھی معاف کردے گا۔‘ اُس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔

’جو میں تمہیں دینا چاہتا تھا، اللہ نے وہ مجھے دیا۔۔۔ ذہنی انتشار، ذہنی ابتری، ذہنی بے سکونی۔۔۔‘ وہ اب ہچکیوں میں رو رہا تھا۔

مجسم شیطان اب مجسم انسان میں بدل رہا تھا کیونکہ اب اسے رحمان یاد آرہا تھا۔

’میں تمہاری بددعاؤں کے حصار میں ہوں۔ فری تم مجھے معاف کردوگی نا؟‘

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

'شہریار آفس سے جاچکا تھا۔ میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ میں شہریار کو بتانا چاہتی تھی کہ میں نے اسے کوئی بددعا نہیں دی بلکہ شہریار میں تو تمہاری شکر گزار ہوں کہ تمہارے ایک دن کے سچ نے مجھے اپنی ہستی کی پہچان کرادی۔ میں نے اپنی ذات کی تمام خوبیوں کی صرف تمہاری وجہ سے ہی تو پہچانا ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر صرف تمہاری وجہ سے ہی تو طے کررہی ہوں۔' فریحہ نے پُرسکون ہو کر اپنی آنکھیں موندھ لیں۔


یہ حقیقی کہانی نہیں ہے، بلکہ لکھاری نے خود تخلیق کی ہے۔

سائرہ ایوب

سائرہ ایوب لاہور کے ایک سرکاری کالج میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ معذوری کے حوالے سے افسانے اور مضامین لکھتی رہتی ہیں اور معذوروں کے مسائل اور ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتی ہیں جن کی وجہ سے معذور حقیقتاً معذور بن جاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔