پاکستان

گزشتہ 4 ماہ میں معیشت مستحکم ہوئی ہے، وزیر اعظم

اب برآمدات اور غیر ملکی ترسیل زر بڑھانے کی کوشش کریں گے،مستقبل کے پاکسان میں چین کا کردار اہم ہوگا،عمران خان کا انٹرویو

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو اسے معاشی مسائل خصوصاً ریکارڈ مالی خسارے کا سامنا تھا لیکن خراب صورتحال میں چین ہمارے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔

ترک ادارے ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ خراب معیشت، مالی مسائل اور بیرونی قرضوں سمیت متعدد مسائل کا سامنا ہے لیکن ہم اپنی موثر معاشی پالیسی کی مدد سے ان تمام چیلنجز کا سامنا کریں گے۔

مزید بڑھیں: اومنی گروپ کے اصل مالک آصف علی زرداری ہی ہیں، فواد چوہدری

وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور اب ہم ملک میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی برآمدات اور غیر ملکی ترسیل زر کو بڑھانے کی کوشش کریں گے تاکہ پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے ہماری کافی مدد کی اور پاک چین اقتصادی راہدری اور گوادر میں سرمایہ کاری سمیت چین کے تعاون سے شروع کیے گئے متعدد منصوبوں کی بدولت مستقبل کے پاکستان میں چین کا کردار انتہائی اہم ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن وہ ہماری اس پیشکش کو کئی بار مسترد کر چکا ہے جس کی وجہ بھارت میں 2019 میں ہونے والے انتخابات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کو پیشکش کی کہ آپ ایک قدم بڑھیں، ہم دو قدم بڑھائیں گے لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن مہم چلانے کے لیے پاکستان مخالف جذبے کو ابھار رہے ہیں کیونکہ بھارت میں اس نعرے کو ووٹ ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے امن مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا

عمران خان نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل 2 ملک جنگ تو دور، سرد جنگ کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے اور اور دونوں ملکوں کا مسائل کو جنگ سے حل کرنا خودکشی ہو گی لہٰذا مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔

ملک میں سیاسی جماعتوں کے خلاف جاری احتساب کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ آصف علی زرداری اور شریف برادران کےخلاف مقدمات ہماری جماعت کے اقتدار میں آنے سے پہلے شروع ہوئے۔ زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس دو سال قبل شروع ہوا جبکہ نواز و شہباز شریف کے خلاف بھی مقدمات ہمارے آنے سے پہلے کے ہیں کیونکہ ہم نے تو ابھی تک کسی کے خلاف مقدمات درج نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ اب ریاستی ادارے ان سیاسی مافیا کے دباؤ سے آزاد ہو کر باآسانی کام کر رہے ہیں اور یہ ادارے کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث کسی بھی فرد کے بھی خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان، امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتا ہے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ہم امریکا کے اتحادی بننے کے لیے تیار ہیں لیکن اب ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔

ضرور پڑھیں: ‘حالیہ سائنسی نظریات ختم ہوکر نریندر مودی لہروں میں بدل جائیں گے’

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے بدقسمتی سے اپنی معیشت بہتر بنانے اور پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے غیرملکی امداد اور بیرونی قرضوں پر انحصار کا راستہ اپنایا اور آپ جب امداد اور قرض کی غرض دوسروں پر انحصار کرتے ہیں تو آپ کو بھی اس کے بدلے کچھ کرنا پڑتا ہے لہٰٰذا پاکستان کو اس پالیسی کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

’ہم کچھ پیسوں کے لیے افغان جہاد کا حصہ بن گئے لیکن اس کے بدلے ہمارے ہاں 40لاکھ مہاجرین آئے جس کے نتیجے میں پاکستان میں منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھا اور شدت پسندی گروپوں نے پناہ لینی شروع کردی اور پھر 11ستمبر 2001 کا حملہ ہوا تو پاکستان دوبارہ امریکا کا اتحادی بن گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا 11/9 سے کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن ہم نے پھر سے پیسہ لے کر وہی راستہ اپنایا جو 80 کی دہائی میں افغان جہاد کے لیے اپنایا گیا تھا جس کی ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑی، ہمارے ملک میں دہشت گردی ہوئی اور 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئیں۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اب پاکستان کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا، ہمیں کسی اور کا کام انجام دینے کے لیے کرائے کی بندوق کی طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا اور ہماری خارجہ پالیسی کی تمام تر توجہ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود پر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اب کسی کی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے امن کے قیام میں کردار ادا کریں گے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے پوری کوششیں کریں گے تاکہ وہاں 16سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو اور اس مسئلے کا سیاسی اور پرامن حل نکل سکے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں 21 سیکیورٹی اہلکار ہلاک

حقانی نیٹ ورک سمیت افغانستان کی جانب سے لگائے جانے والے دیگر الزامات کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ نیٹو اور افغان افواج کی موجودگی میں 3 سے چار ہزار افراد کیسے پورے ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ سب باتیں کر کے لوگوں کو بے وقوف اور پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

’افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور خوش قسمتی سے اب یہ بات سب کو سمجھ آ رہی ہے، ہم کوشش کریں گے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کی مدد سے طالبان کو مذاکرات کے لیے امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ بٹھائیں اور اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں‘۔