پاکستان

’میں پاکستان میں جوڈیشل ایکٹیو اِزم کا خالق‘

جسٹس میاں ثاقب نثار نے 31 دسمبر 2016 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور وہ 17 جنوری 2019 کو ریٹائر ہوگئے۔


چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019 کو ریٹائر ہوگئے، ان کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے دورِ منصفی میں عوامی مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی، پانی کا مسئلہ ہو یا بڑھتی ہوئی آبادی کا عفریت، انہوں نے اس کے سدباب کے لیے خصوصی مہم چلائی، سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر انتظامیہ کی سرزنش کی، جیلوں کے دورے کیے، تھر میں خشک سالی اور بچوں کی اموات پر سندھ حکومت سے جواب طلبی کی۔

ان اقدامات کی وجہ سے چیف جسٹس پر الزامات لگتے رہے کہ انہوں نے ملک میں جوڈیشل ایکٹیو ازم قائم کررکھا ہے اور وہ اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل 12 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خطاب میں کہا کہ ’میں نے ملک میں حقیقی جوڈیشل ایکٹیو ازم کی بنیاد رکھی، جوڈیشل ایکٹیو ازم کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ دوسرے اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت کی جائے یا کسی کی بے عزتی کی جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ عدلیہ اور دیگر اداروں کے آئینی دائرہ کار کو ملحوظ خاطر رکھا، ہسپتالوں کا دورہ کرنے کا مقصد صرف حکومتی وسائل کا درست استعمال یقینی بنانا تھا، ہوسکتا ہے مجھ سے ارادی یا غیر ارادی طور پر غلطیاں سرزد ہوئی ہوں لیکن میں نے جو کچھ بھی کیا قانون کی حکمرانی کے لیے کیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 18 جنوری 1954 میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور کے کیتھڈرل کالج سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بیچلر جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

2 مئی 1980 میں انہوں نے وکالت کا آغاز کیا، جس کے بعد وہ 1982 میں لاہور ہائیکورٹ کے جبکہ 1994 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے، میاں ثاقب نثار 1998 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج اور 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔

میاں ثاقب نثار کو 1997 میں فیڈرل سیکریٹری لا رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب لا کالج اور پاکستان کالج آف لا میں قانون کے لیکچرار بھی رہ چکے ہیں۔



انتظامیہ کے پاس اہلیت
ہے نہ قابلیت،

چیف جسٹس

پاکستان کی اب تک کی تاریخ میں لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا، کے علاوہ سپریم کورٹ کے 4 چیف جسٹس نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی، ان میں سے ایک محمد حلیم ہیں جنہوں نے بحیثیت چیف جسٹس بینظیر بھٹو کیس کا اہم ترین فیصلہ تحریر کیا تھا جس کی وجہ سے پی پی پی کی چیئرپرسن 1988 کے عام انتخابات لڑنے کے لیے اہل قرار پائی تھیں۔

ان کے بعد نسیم حسن شاہ نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے نواز شریف کو معزول کیے جانے کے خلاف دائر کیس میں فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر بحال ہوگئے تھے۔

ان کے علاوہ افتخار محمد چوہدری معروف چیف جسٹس رہے، جو مشرف کے خلاف شروع ہونے والی وکلا تحریک کے آغاز کی وجہ بنے جبکہ ان کی وجہ شہرت از خود نوٹسز بھی تھے، افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور میں چیف جسٹس کو حاصل از خود نوٹس کے اختیار کا خوب استعمال کیا۔

ان کے بعد مقبول ترین چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہیں، جن کی وجہ شہرت از خود نوٹسز اور عوامی مسائل سے متعلق معاملات میں خصوصی دلچسپی تھی، اس کے علاوہ میاں ثاقب نثار کی جانب سے مقدمات کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے جاتے تھے انہیں بھی عوام میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔

خیال رہے کہ میاں ثاقب نثار کا شمار ان ججز میں ہوتا ہے جنہوں نے 2000 میں اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کے زمانے میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، اس وقت میاں ثاقب نثار لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں بہت سے مقدمات میں نہ صرف وفاقی حکومت، صوبائی و شہری حکومتوں اور ان کے عہدیداران و انتظامی امور دیکھنے والی بیوروکریسی کی سرزنش کی گئی بلکہ سیکیورٹی ادارے بھی اس کی زد میں آئے۔

اہم ریمارکس جن مقدمات میں دیئے گئے، ان میں ڈیم کیس، پاناما کیس، بحریہ ٹاؤن کیس، بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس، تھر میں بچوں کی ہلاکت سے متعلق کیس، صاف پانی کیس اور دیگر شامل ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اہم مقدمات میں ریمارکس دیے جنہیں عوامی سطح پر بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

'کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا'

30 ستمبر 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قبضہ گروپ منشا بم کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) والوں نے بدمعاشی کے ڈیرے بنا رکھے ہیں، کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانی محمود اشرف نے ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ لاہور کے معروف علاقے جوہر ٹاؤن میں 9 پلاٹس پر منشا بم نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ قبضہ گروپ چلا رہے ہیں۔

’پرویز مشرف واپس آکر دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں‘

12 جون 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ پرویز مشرف کے پاکستان آنے میں جو رکاوٹ تھی وہ ختم کردی، اب یہ ان کی بہادری پر ہے کہ وہ آتے ہیں یا نہیں، پرویز مشرف آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں۔

سماعت کے دوران سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی، میر حاصل بزنجو، عابدہ حسین، غلام مصطفیٰ کھر اور ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی ) ایف آئی اے بشیر میمن و دیگر عدالت میں پیش ہوئے تھے، جہاں دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اصغر خان عملدرآمد کیس میں مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے، ایک منٹ ضائع کیے بغیر تفتیش مکمل کی جائے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں جہاں عوام کے بنیادی حقوق پورے نہ کرنے پر حکام کی سرزنش ہوئی وہیں کچھ ماتحت عدالتوں کے ججز کے حوالے سے بھی ان کے اقدامات زبان زد عام ہوئے، ان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور اے ڈی ایس جے گل ضمیر سولنگی کا معاملہ بھی شامل ہے۔

’جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات پر مرضی کا بینچ بنانے کی پیشکش‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی تھی جب پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنائے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ ’خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دعویٰ کیا تھا کہ ’خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی تک رسائی کرکے کہا کہ ہم نے انتخابات تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا، شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل مت کرو اور میرے چیف جسٹس نے کہا جس بینچ سے آپ کو آسانی ہے ہم وہ بنا دیں گے‘۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا جبکہ دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے اہم ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے۔

اسی طرح ایک موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی تھی کہ وہ ’دیگر عدالتوں کے ججز کے خلاف توہین آمیز یا ذاتی نوعیت کے بیانات نہ دیں، تمام ججز برابر کی عزت کے حقدار ہیں‘۔

بعد ازاں فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے چیف جسٹس سے ماتحت عدالت کے بیان پر نوٹس لینے کی درخواست کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ اس نوٹس کے نتیجے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے سبکدوش کردیا گیا۔

’جج صاحب! سماعت کے دوران موبائل فون چیمبر میں رکھ کر آیا کریں‘

انہی کے دور میں ایک اور دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی تھی جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے دورہ لاڑکانہ کے دوران اے ڈی ایس جے گل ضمیر سولنگی کی عدالتی کارروائی کے مشاہدے کے دوران جج پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کمرہ عدالت سے نکلتے ہوئے چیف جسٹس نے گل ضمیر سولنگی کا موبائل فون ان کی ڈیسک پر دیکھا اور غصے میں اسے ڈیسک پر پھینکتے ہوئے جج سے کہا کہ وہ کیسز کی سماعت کے دوران اپنا فون اپنے چیمبر میں رکھ کر آیا کریں۔

’بچوں کو ڈگری کے نام پر کاغذ ہاتھ میں نہیں پکڑانا‘

اسی روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی یونیورسٹیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا لیکن اب ہم تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ادھر کسی کو مال بنانے نہیں دیا جائے گا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ مجاہد کامران آپ کس چکر میں پڑ گئے؟ یہ وقت آپ کے پے بیک کا ہے، آپ کو اس عمر میں کتابیں لکھنی چاہئیں اور مفت لیکچر دینے چاہئیں۔

اس پر مجاہد کامران نے جواب دیا کہ میں تو ملازمت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کردیا، آپ کے کالجز اور ایگزیکٹ میں کیا فرق رہ گیا۔

’طاقت، پیسہ آجائے تو لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں‘

16 ستمبر 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نجی ہسپتالوں میں مہنگے داموں علاج کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی، دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ جن کے پاس طاقت اور پیسہ آجاتا ہے وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ ڈاکٹر لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے تو ہسپتال بند کردیں، اس پر ڈاکٹر غضنفر علی شاہ نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے بند کردیں۔

'ناجائز قبضہ کرکے خیرات کے کام نہیں ہوتے'

26 جون 2018 کو اسلام آباد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سرہراہی میں عدالتی فیصلے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے زمین خریدنے والوں سے رقم وصول کرنے کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رقم وصول کرنے سے روک دیا، ساتھ ہی حکم دیا کہ خریدار اپنی رقم سپریم کورٹ کے حکم پر کھولے گئے اکاؤنٹ میں جمع کرائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کو 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ناجائز قبضہ کرکے خیرات کے کام نہیں ہوتے، بحریہ ٹاون کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کرے گا۔

'میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا'

6 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پینے کے پانی کی مہنگے داموں فروخت کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ 'میں نے تو نیسلے کا پانی پینا ہی چھوڑ دیا ہے، لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ نیسلے کا پانی ٹھیک نہیں'۔

دوران سماعت نیسلے منرل واٹر کمپنی کا فرانزک آڈٹ کروانے کا معاملہ زیر غور آیا، جس میں عدالت نے آڈیٹر جنرل پنجاب کو فوری طلب کیا اور ساتھ ہی نیسلے کمپنی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔



ہماری اگلی مہم آبادی پر
قابو پانا ہے،

چیف جسٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے متعدد مرتبہ حکومت کو عدلیہ کے انتظامی معاملات درست کرنے کے ساتھ ساتھ قانون میں اصلاحات کی جانب توجہ دلائی اور آبادی پر کنٹرول سے متعلق اسلام آباد میں ہونے والے ایک کنوینشن میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ملک میں انگریزوں کے وقت میں بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کروایا جارہا ہے جس میں موجودہ دور کی مناسبت سے اصلاحات کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ انہوں نے حکومت کی توجہ ججز کی کمی کی جانب بھی مبذول کروائی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جہاں مختلف معاملات پر از خود نوٹسز لینے کے حوالے سے معروف ہوئے وہیں ان کی ایک وجہ شہرت سرکاری اداروں کے دورے کرنا بھی ہے، انہوں نے ملک کے مختلف ہسپتالوں کے اعلانیہ اور اچانک دورے کیے اور طبی سہولیات کے فقدان اور دیگر مسائل پر انتظامیہ کی سرزنش بھی کی، اس کے علاوہ تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ تھر بھی گئے تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکیں۔

انہوں نے جون 2018 میں ایک کیس کی سماعت کے دوران اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ بحیثیت سربراہ وہ اپنے ادارے کو بہتر طور پر چلانے میں ناکام ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’میں کھلے عام اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے ادارے کو بہتر نہیں بنا سکا‘۔

اپنے فیصلوں پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’بطور چیف جسٹس میں نے کچھ وعدے کیے تھے اور ان وعدوں پر میں نے کتنا عمل کیا، یہ میں قوم پر چھوڑتا ہوں‘۔



چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے دور میں اہم مقدمات کے فیصلے کیے، انہیں ملکی تاریخ کا سب سے فعال جج تصور کیا جاتا ہے، ان کی جانب سے مختلف مقدمات میں دیئے جانے والے فیصلے کچھ یوں ہیں:

پاناما کیس

دسمبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاناما کیس پر بینچ ٹوٹ گیا تھا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 31 دسمبر کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ تشکیل دیا اور اس بینچ نے 4 جنوی 2017 سے اس کیس کی سماعت کا آغاز کیا اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا، جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل کرتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا، بعد ازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاناما کیس پر عملدرآمد بینچ بھی بنایا، 2018 کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی ہٹانے کا فیصلہ سنایا، جس کے بعد پارٹی کی صدارت ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے سنبھالی۔

تلور کے شکار کی اجازت

28 نومبر 2014 کو بلوچستان ہائی کورٹ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تھی، جس کے خلاف بلوچستان کے محکمہ جنگلات نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس کے بعد 19 اگست 2015 میں سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کرتے ہوئے پابندی برقرار رکھی تھی۔

تاہم 22 جنوری 2016 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکومت کی اپیل پر تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کردی، بعد ازاں جنوری 2018 میں لاہور ہائیکورٹ نے پھر شکار پر پابندی لگائی تھی جو اسی ماہ میں اٹھالی گئی تھی۔

واضح رہے کہ ہر سال پاکستان میں تلور کے شکار کا سیزن یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے اور 31 جنوری تک جاری رہتا ہے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں یہ شکار سب سے زیادہ کیا جاتا ہے جس کے لیے عرب حکمران ہر سال آتے ہیں۔

زینب قتل کیس

صوبہ پنجاب کے علاقے قصور میں 4 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 6 سالہ زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں، جس کے نتیجے میں دباؤ کے باعث پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم کو پھانسی کی سزا سنائی اور اس سزا پر عمل در آمد ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کیس

قصور میں 6 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے بعد معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس واقعے میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔

اس دعوے پر چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور انہیں سپریم کورٹ میں طلب کیا تھا، جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر دیئے تھے۔

بعدازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے اس کیس کی تحیقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اینکر پرسن کے دعوے کے بعد تحقیقات کی گئی لیکن مرکزی ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ملا۔

یکم مارچ 2018 کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے ٹی وی پروگرام میں کیے گئے دعوؤں اور انکشافات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی تھی جس میں اینکر پرسن کے دعوؤں کو جھوٹ قرار دے دیا گیا تھا۔

7 مارچ کو سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے ملزم عمران کے بین الاقوامی گروہ سے رابطے سے متعلق دعوؤں پر ان کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی کا وقت گزر چکا، اب انصاف ہوگا جو سب کو نظر آئے گا۔

بعد ازاں 10 مارچ 2018 کو سپریم کورٹ میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل میں مجرم عمران علی سے متعلق کیے گئے انکشافات پر اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے اپنے الزامات ثابت نہ کرنے پر معافی مانگے بغیر آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بیرون ملک مقیم شہریوں کے ووٹ کا حق

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کا حق تسلیم کرتے ہوئے 2018 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی تھی۔

خیال رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق تحریک انصاف اور دیگر کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم 2018 کے عام انتخابات میں یہ لوگ ووٹ ڈالنے سے محروم رہے تھے۔

ڈیموں کی تعمیر اور فنڈ قائم کرنے کا حکم

چیف جسٹس ثاقب نثار نے 7 جون 2018 کو ملک بھر میں پانی کی قلت کا ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ قائم کیے گئے تھے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حکم میں واضح کیا گیا تھا کہ اکاؤنٹ میں موجود فنڈز صرف اور صرف ڈیم کی تعمیر کے لیے اکھٹے کیے جارہے ہیں، جنہیں کسی بھی صورت حال میں کسی بھی وجہ کے پیش نظر کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

اس حوالے سے کسی بھی ابہام سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ فنڈ کے ذرائع کی بابت کوئی ادارہ، کوئی انتظامیہ بشمول ٹیکس اتھارٹی، کوئی سوال نہیں کرے گی تاہم فنڈ کے استعمال کا آڈٹ کیا جائے گا۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں پاکستانیوں سے ڈیم بنانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے پر زور دیتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ڈیم بنانے کے لیے فنڈ میں ڈالرز بھیجیں۔

شاہ رخ جتوئی کیس

24 دسمبر 2012 میں کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو شاہ رخ جتوئی سمیت 4 ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے نوجوان شاہ زیب کو قتل کرنے کے جرم میں شاہ رخ جتوئی اور سراج علی تالپور کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ سجاد علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائیکورٹ نے منظور کیا تھا۔

شاہ رخ جتوئی کو دسمبر 2017 میں رہا کیا گیا تھا جبکہ وہ قریب اڑھائی سال تک جناح ہسپتال میں داخل رہے تھے جہاں وہ زیر علاج تھے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے شاہ زیب قتل کیس کے حوالے سے ازخود نوٹس لیتے ہوئے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کر دی تھیں۔

سپریم کورٹ نے یکم فروری کو شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 ملزمان کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

پی آئی اے کے طیاروں پر مار خور کی تصویر

مئی 2018 میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے طیارے کی دم پر قومی پرچم کو مارخور کی تصویر کے ساتھ تبدیل کرنے کا عمل روک دیں، جس کے بعد جنوری 2019 کے پہلے ہفتے میں پی آئی اے نے اپنے نئے نیلے لوگو (علامت) کو ختم کرتے ہوئے پرانے سلوگن ’عظیم لوگوں کی ہمارے ساتھ پرواز‘ (Great People to Fly With) کو بحال کرنے کا فیصلہ کریا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روپے بتائی گئی تھی، اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ملک ریاض حسین اور ان کے داماد زین ملک 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران دسمبر میں طلب کیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے مذکورہ کیس تحقیقات کے لیے نیب کو بھیج دیا تھا۔

ڈی پی او پاکپتن کی تبدیلی

23 اگست 2018 کو وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ اور خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو مبینہ طور پر روکنے والے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا، بعد ازاں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی تھی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا تھا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں'۔

27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں انہوں نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، ان کے قریبی دوست احسن جمیل گجر اور سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کلیم امام کی جانب سے غیر مشروط معافی نامہ قبول کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا تھا۔

آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس

اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا۔

اسی حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔

معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ 'سنا ہے کہ کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹایا گیا'، سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

29 نومبر کو عدالتی حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جس میں اعظم سواتی کو قصور وار ٹھہرایا گیا تھا اور اس میں تحریر تھا کہ اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا جبکہ ایک وفاقی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔

5 دسمبر کی ہی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ 62 ون ایف پر شہادتیں ریکارڈ کرنے کی مجاز ہے تاہم کیس کا فیصلہ آنے سے قبل ہی اعظم سواتی مستعفی ہوگئے۔

ایون فیلڈ کیس

6 جولائی شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو 19 ستمبر کو معطل کردیا تھا، جسے نیب نے عدالت عظمیٰ میں چینلج کردیا تھا۔

جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کی اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کردیا تھا اور 14 جنوری کو نیب کی اپیل کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے نیب کی جانب سے سزاؤں کی معطلی کی درخواست خارج کردی۔

پاکپتن اراضی کیس

سپریم کورٹ نے پاکپتن میں دربار کے گرد اوقاف کی زمین کی اراضی کی الاٹمنٹ اور دکانوں کی تعمیر سے متعلق ازخود نوٹس میں 4 دسمبر 2018 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

بعد ازاں 13 دسمبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے ڈی جی نیکٹا خالق داد لک کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اور ٹیم میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندوں کو بھی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس

17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

اگست 2017 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا، بعد ازاں عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آئی۔

واقع میں ہلاک ہونے والی خاتون کی صاحبزادی بسمہ امجد نے اپنی والدہ کے قتل کے خلاف سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تھے۔

5 دسمبر 2019 کو پنجاب حکومت نے ماڈل ٹاؤن کیس میں ازسرِ نو تحقیقات کے لیے نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ میں اس سے متعلق درخواست نمٹا دی گئی تھی۔

منرل واٹر کمپنیاں

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 14 ستمبر 2018 کو منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے تمام کمپنیوں سے پانی کے استعمال کا ڈیٹا طلب کرلیا تھا۔

بعد ازاں 13 نومبر کو سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کو پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کرنے کا حکم دیا تھا اور عدالت نے ’منرل واٹر‘ کمپنیوں کی جانب سے فروخت ہونے والے پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے کمیٹی قائم کر دی تھی اور اس سماعت میں منرل واٹر کمپنی نیسلے کے نمائندے، ڈاکٹرز اور ماہرین بھی پیش ہوئے تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ برسوں سے یہ لوگ بغیر ادائیگی زیر زمین پانی نکال رہے ہیں، کمپنی مالکان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے صوبوں کو حکم دیا تھا کہ وہ پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کریں اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیں۔

بحریہ ٹاؤن کیس

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس میں ڈائریکٹر جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی، ساتھ ہی عدالت نے سپارکو کو بھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تفصیلات لینے کا حکم دیا تھا۔

9 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیر قانونی زمین واگزار کروانے کا حکم دیا تھا۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا، جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے، آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، تاہم عدالت عالیہ نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

آسیہ بی بی نے موت کی سزا کو چیلنج کیا تھا، جس پر 22 جولائی 2015 کو سپریم کورٹ نے ان کی اپیل سماعت کے لیے منظور کی تھی اور عدالت عظمیٰ نے آسیہ بی بی کی سزا کے عدالتی فیصلے کے خلاف آخری اپیل پر 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

13 اکتوبر کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی کی جانب سے یہ انتباہ دیا گیا تھا کہ ’اگر سپریم کورٹ آسیہ بی بی کو بری کرتی ہے تو کچھ ہی دیر میں پورے ملک کو مفلوج کردیا جائے‘، 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم ملک بھر میں مذہبی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں کے بعد آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی، جس کے بعد ملک میں دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوا۔

یکم نومبر 2018 کو سپریم کورٹ میں نئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کی تعیناتی سے متعلق وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت کے دوران آسیہ بی بی سے متعلق فیصلے پر بھی چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس بینچ نے آسیہ بی بی کا فیصلہ دیا وہ کسی سے کم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں، لوگوں کو ہمارا فیصلہ پڑھنا چاہیے تھا۔

نہال ہاشمی توہین عدالت کیس

مئی 2017 میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے اپنی جذباتی تقریر میں دھمکی دی تھی کہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی۔

ویڈیو میں نہال ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے،'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والو! ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے'۔

لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے دوبارہ پیش ہوئے، جہاں ان سے 5 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔

وزیراعظم نواز شریف نے لیگی رہنما نہال ہاشمی کے متنازع بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اسلام آباد طلب کرلیا تھا اور ساتھ ہی نہال ہاشمی کے خلاف پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پرانضباطی کارروائی کاحکم بھی دیا تھا، بعدِ ازاں گزشتہ برس 31 مئی 2017 کو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔

نہال ہاشمی نے پارٹی کی رکنیت سے محروم ہونے کے بعد سینیٹ کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا تاہم چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا تھا جبکہ انہیں بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دی گئی تھی۔

بعدِ ازاں مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو 'دھمکیاں دینے' اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے، علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا ازخود نوٹس لیا اور معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ اس نوٹس پر سماعت کر رہا تھا جس میں گزشتہ سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی بھی مانگی تھی۔

تاہم سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 5 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔

طلال چوہدری توہین عدالت کیس

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کی 24 اور 27 جنوری 2018 کی تقاریر میں عدلیہ مخالف تقاریر پر نوٹس لیا تھا، طلال چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے جڑانوالہ میں جلسے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک وقت تھا جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، آج ہماری عدالت جو ایک اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے میں پی سی او ججز کی بھرمار ہے'۔

بعد ازاں یکم فروری چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا، سپریم کورٹ نے 6 فروری 2018 کو طلال چوہدری کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مہلت دی تھی۔

15 مارچ 2018 کو ان پر توہین عدالت مقدمے میں فرد جرم عائد کردی گئی تھی، بعد ازاں 21 مئی کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اگست 2018 کو سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی اور جس کے ساتھ ہی وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوئے تھے۔



کسی بدمعاش کو پاکستان میں
نہیں رہنے دوں گا،

چیف جسٹس

دانیال عزیز توہین عدالت کیس

2 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف تقریر کے ازخود نوٹس کیس میں سابق وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا، 7 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے دانیال عزیز کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دے دی تھی۔

19 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ دانیال عزیز کا 9 جون 2017 کو دنیا اخبار میں شائع بیان، 15 دسمبر 2017 کو ڈان نیوز اور نیو ون ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرامز میں دیے گئے بیانات پر دانیال عزیز بادی النظر میں توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، جس پر انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔

23 فروری کو سپریم کورٹ نے دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ڈان نیوز سمیت 2 نجی ٹی وی چینلز کی دانیال عزیز کی تقریر سے متعلق نیوز کلپس اور ٹرانسکرپٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، 13 مارچ کو عدالتِ عظمیٰ نے دانیال عزیز کے خلاف توہینِ عدالت کیس میں فردِ جرم عائد کی اور جسٹس مشیر عالم نے فردِ جرم پڑھ کر سنائی۔

بعدازاں 16 اپریل کو دانیال عزیز نے موقف اختیار کیا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی ویڈیو کلپس اور ڈان نیوز پر چلنے والے ویڈیو کلپس میں مطابقت نہیں تاہم سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں دانیال عزیز کو عدالت کے برخاست ہونے تک کی سزا سناتے ہوئے 5 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا، جس کے بعد وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔

تھر میں بچوں کی اموات کا کیس

چیف جسٹس ثاقب نثار نے میڈیا پر مٹھی کے تقریباً 11 ہزار بچوں کی حالت زار کے حوالے سے چلنے والی رپورٹس پر مارچ 2017 میں از خود نوٹس لیا تھا، انہوں نے تھر میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت پر چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس سلسلے میں 36 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔

میڈیا رپوٹس میں ان علاقوں میں پانی بحران، صحت عامہ کے مسائل اور ہسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کو اموات کی اہم وجہ قرار دیا گیا تھا۔

7 دسمبر 2018 کو چیف جسٹس نے تھر میں بھوک اور بیماریوں سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران 12 دسمبر کو تھر آنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومتِ سندھ کو انتظامات مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ تھر میں جو قرضوں اور خشک سالی کا معاملہ ہے، میں 12 دسمبر کو تھر جا رہا ہوں، فیصل صدیقی میرے لیے جہاز ہی چارٹر کرا دیں، سندھ حکومت وہاں انتظامات کرے، میں وہاں جاؤں گا۔

دورہ تھر کے بعد چیف جسٹس مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ میرے دورے کے لیے تھر میں انتظامات کرائے گئے، بعد میں سامان واپس بھجوادیا گیا۔

سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس

8 اگست 2016 کو بلوچستان بار کونسل کے صدر ایڈووکیٹ بلال انور کاسی کو قتل کردیا گیا تھا، جن کی میت کے ساتھ بڑی تعداد میں وکلاء سول ہسپتال پہنچے تھے کہ اسی دوران شعبہ حادثات کے بیرونی گیٹ پر خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں وکلا سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔

جائے وقوع پر موجود صحافی بھی دھماکے کی زد میں آئے، نجی نیوز چینل آج ٹی وی کے کیمرہ مین بھی ہلاک جبکہ ڈان نیوز کے کیمرا مین 25 سالہ محمود خان شدید زخمی ہوئے جو بعدازاں ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئے تھے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، بعدازاں داعش نے بھی خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

حملے کے بعد ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پورے ملک میں فوری طور پر کومبنگ آپریشنز کا حکم دیا تھا۔

سانحے کے بعد پر 31 اگست 2016 کو اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سانحہ کوئٹہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا، جس نے اسی سال اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔

اس رپورٹ میں 21 اکتوبر 2016 کو اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی 3 کالعدم تنظیموں کے سربراہ (سپاہ صحابہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت) مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات اور ان کے مطالبات سننے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

16 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان کی فیصلے سے سابق وزیر داخلہ کا نام حذف کرنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ سانحہ کوئٹہ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں، کمیشن رپورٹ میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف تحقیقات کو عدالتی حکم نہ سمجھا جائے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مسائل کے خاتمے کے لیے عدالت کو اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنا پڑا جبکہ سانحہ کوئٹہ کے باعث درپیش مسائل کو حل کرنے میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔

سزائے موت کے نفسیاتی مریض خضر حیات کا نوٹس

خضر حیات نامی پولیس اہلکار کو ساتھی کو قتل کرنے پر اکتوبر 2001 میں مجرم قرار دیا گیا تھا جبکہ ٹرائل کورٹ نے 2 سال بعد 2003 میں انہیں سزائے موت سنائی تھی۔

دسمبر 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے خضر کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے لیے ان کی والدہ کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی۔

عدالت کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے کے بعد جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے خضر حیات کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی خضر حیات کے بلیک وارنٹ دو بار جاری ہوچکے تھے اور دونوں مرتبہ لاہور ہائی کورٹ نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا تھا۔

جون 2015 میں خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے گئے جسے ہائی کورٹ نے آخری لمحات میں منسوخ کردیا تھا۔

اس کے بعد جنوری 2017 میں لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے خضر کے ایک مرتبہ پھر ڈیتھ وارنٹ جاری کیے لیکن اس مرتبہ بھی ہائی کورٹ نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔

جنوری 2019 کے پہلے ہفتے میں لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ذہنی مرض شیزوفرینیا (جس میں مریض کی شخصیت بے ربط، منتشر ہوجاتی ہے) میں مبتلا سزائے موت کے قیدی خضر حیات کو تختہ دار پر لٹکانے کی تاریخ 15 جنوری مقرر کردی تھی۔

ڈسٹرکٹ سیشن جج خالد نواز کے دفتر سے جاری ہونے والے ڈیتھ وارنٹ کے مطابق سابق پولیس کانسٹیبل خضر حیات کو سینٹرل جیل لاہور میں سزائے موت دی جانی تھی تاہم 12 جنوری 2019 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے سزائے موت کے منتظر مبینہ ذہنی مریض خضر حیات کی پھانسی تاحکم ثانی معطل کردی تھی۔



سپریم کورٹ کے موجودہ 16 ججز میں سے 8 کو چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کا موقع ملے گا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019 نے اپنی مدت مکمل کرلی، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد 8 ججز کو بالترتیب یہ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا۔

اس فہرست میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال مقرر ہے اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز کی موجودہ سنیارٹی لسٹ کے مطابق 8 ججز کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بننے کا موقع میسر آئے گا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر 8 ججز صاحبان چیف جسٹس کے منصب پر پہنچنے سے قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 17 ججز صاحبان ہیں، جن میں سے 8 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا تاہم 8 ججز صاحبان یہ اہم ترین عہدہ ملنے سے قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔

17 جنوری 2019 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد 18 جنوری کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور وہ اسی سال 20 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

ان کے بعد جسٹس گلزار احمد اس عہدہ پر فائز ہوں گے اور وہ یکم فروری 2022 تک چیف جسٹس کے عہدہ سے ریٹائر ہوجائیں گے، ان کے بعد 2 فروری کو جسٹس عمر عطاء بندیال، چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے اور وہ 16ستمبر 2023 تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔



پرویز مشرف واپس آکر دکھائیں
کہ وہ کتنے بہادر ہیں،

چیف جسٹس

جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے اور وہ 25 اکتوبر 2024 تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔

ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس مقرر ہوں گے اور وہ 4 اگست 2025 کو ریٹائر ہو جائیں گے، ان کی جگہ جسٹس سید منصور علی شاہ، چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ 27 نومبر2027 کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچیں گے اور ان کی جگہ جسٹس منیب اختر کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا۔

جسٹس منیب اختر 13 دسمبر 2028 کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر سبکدوش ہوں گے اور ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مقرر ہوں گے جبکہ وہ 22 جنوری 2030 کو ریٹائر ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ کے دیگر سینئر ججز جو اس عرصے میں چیف جسٹس نہیں بن سکیں گے اور ریٹائر ہوجائیں گے، ان میں:

  • جسٹس شیخ عظمت سعید 27 اگست 2019
  • جسٹس مشیر عالم 17 اگست 2021
  • جسٹس مقبول باقر 4 اپریل 2022
  • جسٹس منظور احمد ملک 30 اپریل 2021
  • جسٹس سردار طارق مسعود 10 مارچ 2024
  • جسٹس فیصل عرب 4 نومبر 2020
  • جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل 13 جولائی 2022
  • جسٹس سجاد علی شاہ 13 اگست 2022

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا تعارف

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار رواں سال 17 جنوری کو ریٹائر ہوگئے، ان کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

انہیں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے سے شہرت ملی جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔

2010 میں سپریم کورٹ تک ترقی پانے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما لیکس کے بعد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی کی تھی۔

انہوں نے 1969 میں میٹرک کے امتحان میں ملتان بورڈ سے پانچویں جبکہ 1971 میں انٹرمیڈیٹ میں لاہور بورڈ اور 1973 میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشنز حاصل کیں، اسی یونیورسٹی سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1975 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں 3 مرتبہ نیشنل ٹیلنٹ اسکالرشپ سے نوازا گیا۔

ماسٹرز ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے برطانیہ کا رخ کیا، جہاں کیمبرج یونیورسٹی سے 1977 اور 1978 میں انہوں نے قانون کی 2 ڈگریاں حاصل کیں، برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1979 میں وطن واپس آئے اور لاہور ہائیکورٹ سے وکالت کا آغاز کیا اور 1985 میں سپریم کورٹ کے وکیل بن گئے۔

20 سال تک وکالت جاری رکھنے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 مئی 1998 میں لاہور ہائیکورٹ جبکہ 2010 میں سپریم کورٹ کے جج منتخب ہوئے۔

مئی 1998 میں آصف سعید کھوسہ لاہور ہائی کورٹ میں جج مقرر ہوئے اور جب سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 7 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 'پی سی او' کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔

اگست 2008 میں وکلا کی تحریک کے بعد وہ لاہور ہائی کورٹ میں جج کی حیثیت سے بحال ہوئے۔

علاوہ ازیں جسٹس آصف سعید کھوسہ 4 کتابوں کے خالق بھی ہیں جن میں، ہیڈنگ دی کانسٹیٹیوشن، کانسٹیٹیوشنل اپولوگس، ججنگ ود پیشن اور بریکنگ نیو گراونڈ شامل ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لمز یونیورسٹی، بی زیڈ یو اور پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں قانون پڑھانے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے، ایک اندازے کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ 18 سال سے زائد عرصے میں 50 ہزار کے قریب مقدمات کے فیصلے سنا چکے ہیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو پاکستان کا 26 واں چیف جسٹس تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے، موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری کو ریٹائر ہوجائیں گے، جس کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ 18 جنوری کو عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

چیف جسٹس کے عہدے پر 3 سو 47 دن تک فائز رہنے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ رواں سال 20 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

ان کے بعد جسٹس گلزار احمد اس عہدہ پر فائز ہوں گے اور وہ یکم فروری 2022 تک چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔


پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان سے مراد ملک کے نظام عدل (عدلیہ) کا سربراہ ہے، اس عہدے پر فائز شخص ملک کی سپریم کورٹ سمیت تمام ماتحت عدالتوں کا سربراہ تصور ہوتا ہے، قیام پاکستان سے 2019 تک ملک کی تاریخ میں 25 سینئر ججز نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا ہے، جنہیں 1960 تک فیڈرل ججز کہا جاتا تھا۔

ویسے تو ججز سے مراد ایسی شخصیت ہے جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں کلیدی کردار تصور کی جاتی ہے تاہم سینئر یا چیف جسٹس کے اختیارات میں سپریم کورٹ میں آنے والی اپیلوں کے ساتھ ساتھ وفاق کے عدالتی نظام کی پالیسز ترتیب دینا بھی شامل ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ملک کے اس اہم ترین عہدے کا تقرر پہلے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کیا جاتا تھا تاہم اب یہ کام جوڈیشل کونسل کرتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد 27 جون 1949 کو سر میاں عبدالرشید کو ملک کا پہلا چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا، ملک میں چیف جسٹس کے عہدے پر طویل ترین مدت گزارنے والے جج محمد حلیم تھے جبکہ جسٹس محمد شہاب الدین سب سے کم مدت، صرف 9 روز تک، چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات رہے، علاوہ ازیں افتخار محمد چوہدری ملک کے اب تک کے واحد چیف جسٹس تھے جنہوں نے اپنی مدت ملازمت 3 مختلف مرحلوں میں مکمل کی۔

ملک کے پہلے چیف جسٹس سر میاں عبدالرشید نے مذکورہ عہدہ 27 جون 1949 کو سنبھالا تھا اور ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ بار سے تھا، انہیں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت تعینات کیا گیا تھا، سر میاں عبدالرشید نے ایک ہزار 8 سو 26 روز تک چیف جسٹس کے عہدے پر خدمات انجام دیں اور وہ 29 جون 1954 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

ان کے بعد محمد منیر نے 29 جون 1954 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، ان کا تعلق بھی اپنے پیش رو کی طرح لاہور ہائی کورٹ بار سے تھا تاہم انہیں ملک کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے تعینات کیا تھا، انہوں نے مذکورہ عہدے پر 2 ہزار ایک سو 34 دن گزارے اور 2 مئی 1960 کو ریٹائر ہوگئے۔

محمد شہاب الدین نے 3 مئی 1960 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تاہم وہ عہدہ سنبھالنے کے 9 روز بعد 12 مئی 2019 کو انتقال کرگئے، ان کا تعلق مدراس ہائی کورٹ سے تھا اور انہیں ایوب خان نے تعینات کیا تھا۔

ان کے بعد الوین رابرٹ کورنیلیس کو 13 مئی 1960 میں چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا گیا، ان کا تعلق بھی لاہور ہائیکورٹ بار سے تھا اور انہیں بھی ایوب خان نے تعینات کیا تھا، وہ اس عہدے پر 2 ہزار 8 سو 48 دن تک براجمان رہے اور 29 فروری 1968 میں عہدہ چھوڑا۔

شیخ عبدالرحمٰن نے یکم مارچ 1968 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور 94 دن تک اس عہدے پر تعینات رہنے کے بعد وہ 3 جون 1968 کو اس عہدے سے ریٹائر ہوئے، انہیں بھی ایون خان نے تعینات کیا تھا۔

سینئر جج فضل اکبر نے 4 جون 1968 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور وہ ایک سو 66 روز تک اس عہدے ہر تعینات رہے، ان کا تعلق مشرقی پاکستان ہائیکورٹ سے تھا، انہوں نے 17 نومبر 1986 کو اپنی مدت ملازمت مکمل کی، انہیں بھی ایوب خان نے چیف جسٹس تعینات کیا تھا۔



ماں ہی قربانی کیوں دیتی ہے
باپ کیوں نہیں؟

چیف جسٹس

ان کے بعد ایوب خان نے حمود الرحمٰن کو 18 نومبر 1968 کو چیف جسٹس تعینات کیا، ان کا تعلق کلکتہ ہائی کورٹ سے تھا اور وہ اس عہدے پر 2 ہزار 5 سو 38 روز تک تعینات رہے اور 31 اکتوبر 1975 کو ریٹائر ہوگئے۔

ایوب علی کو یکم نومبر 1675 کو فضل الہٰی چوہدری نے چیف جسٹس تعینات کیا، ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ سے تھا، وہ 6 سو 91 روز تک عہدے پر فائز رہے، 22 ستمبر 1977 کو ریٹائر ہوگئے۔

لاہور ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے شیخ انوار الحق کو 23 سمتبر 1977 کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا، ان کی تعیناتی فضل الہٰی چوہدری نے کی تھی، وہ ایک ہزار 2 سو 79 روز تک اس عہدے پر رہے اور 25 مارچ 1981 کو مستعفی ہوگئے تھے۔

جنرل ضیا الحق نے 23 مارچ 1981 کو محمد حلیم کو چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کیا تھا، ان کا تعلق سندھ ہائیکورٹ سے تھا اور وہ مذکورہ عہدے پر تعینات رہنے والے ملک کے طویل ترین چیف جسٹس ہیں، محمد حلیم 3 ہزار 2 سو 5 روز تک چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات رہے اور 31 دسمبر 1989 میں ریٹائر ہوئے۔

محمد حلیم نے بحیثیت چیف جسٹس بینظیر بھٹو کیس کا اہم ترین فیصلہ تحریر کیا تھا جس کی وجہ سے پی پی پی کی چیئرپرسن 1988 کے عام انتخابات لڑنے کے لیے اہل قرار پائیں تھیں۔

ان کے بعد افضل ذواللہ نے یکم جنوری 1990 میں چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ سے تھا اور انہیں اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے تعینات کیا تھا، وہ ایک ہزار 2 سو 3 روز تک مذکورہ عہدے پر فائز رہنے کے بعد 18 اپریل 1993 کو ریٹائر ہوئے۔

صدر اسحٰق خان نے افضل ذواللہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نسیم حسن شاہ کو چیف جسٹس تعینات کیا، نسیم حسن شاہ نے 17 اپریل 1993 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 3 سو 62 روز تک مذکورہ عہدے پر تعینات رہنے کے بعد وہ 14 اپریل 1994 کو ریٹائر ہوگئے، ان کا تعلق بھی لاہور ہائیکورٹ سے تھا۔

واضح رہے کہ نسیم حسن شاہ برصغیر میں طویل عرصے تک جج کے عہدے پر تعینات رہے، انہوں نے 39 سال کی عمر میں ہائیکورٹ میں جج کا عہدہ سنبھالا اور 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تھے۔

انہوں نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے نواز شریف کو معزول کیے جانے کے خلاف دائر درخواست میں فیصلہ سنایا تھا، جس کے نتیجے میں نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر بحال ہوگئے تھے۔

لاہور ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے سعد سعود جان کو صدر فاروق لغاری نے 15 اپریل 1994 کو قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا اور وہ 50 روز تک مذکورہ عہدے پر رہے اور 4 جون 1994 کو اس عہدے سے علیحدہ ہوگئے۔

بعد ازاں صدر فاروق لغاری نے سندھ ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے سید سجاد علی شاہ کو 5 جون 1994 کو چیف جسٹس تعینات کیا اور وہ ایک ہزار 2 سو 76 روز تک مذکورہ عہدے پر تعینات رہے اور 2 دسمبر 1997 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے، صدر فاروق لغاری کی جانب سے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت تحلیل کردیا گیا تھا اور چیف جسٹس اور دیگر 6 ججز نے صدر کے مذکورہ اقدام کی توثیق کی تھی۔

ان کے بعد سندھ ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے اجمل میاں کو اس وقت کے قائم مقام صدر وسیم سجاد نے چیف جسٹس تعینات کیا اور انہوں نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف 27 دسمبر 1997 کو اٹھایا، اجمل میاں 5 سو 50 روز تک مذکورہ عہدے پر فائز رہنے کے بعد 30 جون 1999 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

یکم جنوری 1999 کو سعید الزماں صدیقی نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، ان کا تعلق سندھ ہائی کورٹ سے تھا اور انہیں صدر رفیق تارڑ نے تعینات کیا تھا، وہ 2 سو 9 روز تک مذکورہ عہدے پر فائز رہے اور انہوں نے 26 جنوری 2000 کو پرویز مشرف کے آمرانہ دور حکومت میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا اور مستعفی ہوگئے تھے۔

بعد ازاں صدر رفیق تارڑ نے لاہور ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے ارشد حسن خان کو چیف جسٹس تعینات کیا، انہوں نے 26 جنوری 2000 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 7 سو 11 روز تک اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد 6 جنوری 2002 کو ریٹائر ہوگئے۔

ان کے بعد پرویز مشرف نے پشاور ہائی کورٹ کے جج بشیر جہانگیری کو چیف جسٹس تعینات کیا، جنہوں نے 7 جنوری 2002 کو عہدے کا حلف اٹھایا، وہ 24 روز تک مذکورہ عہدے پر تعینات رہے اور 31 جنوری 2002 کو ریٹائر ہوگئے۔

یکم فروری 2002 کو شیخ ریاض احمد نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، ان کا تعلق لاہور ہائی کورٹ سے تھا اور وہ 6 سو 98 روز تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے اور 31 دسمبر 2003 کو ریٹائر ہوگئے، انہیں بھی پرویز مشرف نے تعینات کیا تھا۔

بعد ازاں پرویز مشرف نے سندھ ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے جج ناظم حسین صدیقی کو چیف جسٹس تعینات کیا، انہوں نے اپنے عہدے کا حلف 31 دسمبر 2003 کو اٹھایا اور 5 سو 46 روز تک اس عہدے پر تعینات رہنے کے بعد وہ 29 جون 2005 کو ریٹائر ہوگئے۔

واضح رہے کہ ناظم حسین صدیقی نے پرویز مشرف کے باوردی صدر رہنے اور 17ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر پٹیشن پر فیصلہ سنایا تھا، اس کے علاوہ ان کے دور معروف کیسز میں شہباز شریف کی وطن واپسی، آصف زرداری کی ضمانت اور مختارا مائی ریپ کیس قابل ذکر ہیں۔

ناظم حسین صدیقی کی ریٹائر منٹ کے بعد پرویز مشرف نے بلوچستان ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس تعینات کیا، جنہوں نے 29 جون 2005 کو عہدے کا حلف اٹھایا۔

خیال رہے کہ اس وقت کے آمر سے بعض امور پر اختلافات سامنے آنے کے بعد 9 مارچ 2007 کو پرویز مشرف نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تاہم افتخار محمد چوہدری نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا، جس پر پرویز مشرف نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا، پرویز مشرف کے اس اقدام کے خلاف وکلا تحریک کا آغاز ہوا۔

وکلا تحریک کی وجہ سے 20 جولائی 2007 کو افتخار محمد چوہدری دوبارہ چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہوئے لیکن پرویز مشرف نے اسی سال نومبر میں ایمرجنسی فائز کردی اور افتخار محمد چوہدری کو گرفتار کرکے دیگر 60 سینئر ججز کو معطل کردیا گیا۔



ناجائز قبضہ کرکے خیرات
کے کام نہیں ہوتے،

چیف جسٹس

بعد ازاں پرویز مشرف نے دسمبر میں ایمرجسنی اٹھالی اور 2018 کے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا جس میں پی پی پی نے کامیابی حاصل کی اور پرویز مشرف نے انتہائی دباؤ کے باعث استعفیٰ دے دیا، اس کے بعد آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے تاہم انہوں نے افتخار محمد چوہدری کی بحال کے معاملے کو ملتوی کردیا۔

علاوہ ازیں وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کیا گیا اور نواز شریف کی پارٹی بھی اس میں شامل ہوگئی جس کے بعد 22 مارچ 2009 کو افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا گیا تاہم انہیں 12 دسمبر 2013 کو معزول کردیا گیا، انہوں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے 3 ادوار دیکھے اور مجموعی طور پر 2 ہزار 4 سو 70 روز تک مذکورہ عہدے پر فائز رہے۔

ان کی جانب سے لیے جانے والے از خود نوٹسز کی وجہ سے عوام نے ان سے کافی اُمیدیں لگا رکھیں تھی تاہم وہ عوام کی اُمیدوں پر پورا نہیں اترے اور عوام کو ایک مرتبہ پھر ملک کے عدالتی نظام سے مایوسی ہوئی۔

انہوں نے بطور چیف جسٹس مختلف معاملات پر از خود نوٹسز لیے جن میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری، بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ، نیو مری منصوبے کے خلاف فیصلہ، قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے خلاف فیصلہ، سوئس اکاؤنٹس کے معاملے میں یوسف رضا گیلانی کو سزا اور دیگر شامل ہیں۔

بعد ازاں افتخار محمد چوہدری نے 25 دسمبر 2015 کو پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک کریٹک پارٹی کے بانی کے طور پر سیاست میں قدم رکھا تاہم انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔

9 مارچ 2007 میں افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پرویز مشرف نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس جاوید اقبال کو 15 روز کے لیے قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا، ان کے بعد سندھ ہائیکورٹ سے تعلق رکھنے والے رانا بھگوان داس کو 87 روز کے لیے جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے عبدالحمید ڈوگر، چیف جسٹس کے عہدے پر 5 سو 4 روز تک فائز رہے۔

12 دسمبر 2013 کو تصدق حسین جیلانی نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا، ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ سے تھا اور انہیں صدر ممنون حسین نے تعینات کیا تھا وہ مذکورہ عہدے پر ایک سو 76 روز گزارنے کے بعد 6 جولانی 2014 کو ریٹائر ہوگئے۔

ان کے بعد صدر ممنون حسین نے پشاور ہائی کورٹ سے تعلق رکھنے والے جج جسٹس ناصر الملک کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا، انہوں نے 7 جولائی 2014 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور 4 سو 35 رو تک مذکورہ عہدے پر فائز رہنے کے بعد 16 اگست 2015 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

17 اگست 2015 کو جواد ایس خواجہ نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ سے تھا اور انہیں صدر ممنون حسین نے تعینات کیا تھا، وہ 23 روز تک مذکورہ عہدے پر فائز رہنے کے بعد 9 ستمبر 2015 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

صدر ممنون حسین نے 10 ستمبر 2015 کو انور ظہیر جمالی کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا، ان کا تعلق سندھ ہائیکورٹ سے تھا، انہوں نے مزکورہ عہدے پر 4 سو 77 کا عرصہ گزارنے اور 30 دسمبر 2016 کو ریٹائر ہوگئے تھے۔

موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 31 دسمبر 2016 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، انہیں بھی صدر ممنون حسین نے تعینات کیا تھا، ان کا تعلق لاہور ہائیکورٹ سے تھا اور وہ (7 سو 37 دن) مذکورہ عہدے پر گزارنے کے بعد 17 جنوری 2019 کو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے۔

ان کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 18 جنوری 2019 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا، صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔


کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی میں قانون کی پابندی کو بنیادی امر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ مفروضہ ہر زبان زد عام ہے کہ 'اگر قانون نہ ہو تو معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے'، جہاں بھی قانون کا ذکر کیا جائے گا وہاں عدلیہ کا ذکر ضرور ہوگا، قوموں کی ترقی کے حوالے سے جن چند امور کو لازمی قرار دیا گیا ہے ان میں انصاف کی فراہمی کو ہمیشہ اولین ترجیح دی گئی ہے۔

قانون کی بالادستی نہ صرف معاشرے کی ترقی سے لازم و ملزوم ہے بلکہ یہ نظام عدل کے ذریعے معاشرے کے انسانوں کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بھی اہم تصور کی جاتی ہے، ایسے معاشرے میں جہاں انصاف کا حصول عوام کے لیے مشکل ہو یا ممکن نہ رہے تو وہاں لوگوں میں عدم تحفظ پروان چڑھتا ہے جو نہ صرف ملک میں انارکی کا باعث ہوسکتا ہے بلکہ اس کے باعث پیدا ہونے والے انتشار سے عوام کے جان و مال کے زیاں اور نقص امن جیسا معاملہ بھی سامنے آسکتا ہے۔

دنیا میں اس وقت بہت سے جمہوری ممالک میں جہاں قانون یا عدلیہ یا عدل و انصاف کی بالادستی کا چرچہ کیا جاتا ہے وہیں کچھ ایسے جمہوری ممالک بھی ہیں جہاں طاقت ور کے لیے انصاف پُرتعش اور دیگر نوعیت کے ساتھ ساتھ سہولیات فراہم کرتا ہے جبکہ مظلوم کے لیے انصاف کے معنی صرف بنیادی حقوق تک ہی محدود ہیں۔



ہمارے پاس قانون سازی
کا اختیار نہیں،

چیف جسٹس

پاکستان دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے اور آزادی کے 70 سال گزر جانے کے باوجود بھی اب تک ترقی کی ابتدائی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، ویسے تو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری عدم استحکام کی وجہ جمہوری حکومتوں پر لگائی جانے والی قدغن اور آمروں کی جانب سے جمہوری حکومتوں پر مارا جانے والا شب خون ہے۔

بہر حال پاکستان میں قانون کی بالادستی اور اس پر عمل درآمد کے وعدے تو ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں شامل کرتی ہے لیکن وہ اقتدار میں آنے کے بعد ایسا کرنا اکثر و بیشتر بھول جاتی ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ 7 دہائیوں سے ملک کے مظلوم عوام، اُمرا اور با اختیار طبقے کی وجہ سے ظلم کی چکی میں پستے چلے جارہے ہیں۔

17 جنوری 2019 کو مدت ملازمت مکمل کرنے والے چیف جسٹس عوام کی اُمیدوں پر کس قدر پورا اترنے میں کامیاب رہے اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم آنے والا وقت ہی اس کی تصدیق یا تردید کرسکتا ہے۔