پاکستان

بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی رپورٹ اور ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کا معاملہ نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت بھی دے دی۔
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے بھائی عاصم منصور کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، اس دوران حکومتی نمائندے اور فریقین کے وکلا پیش ہوئے۔

مجبور نہ کریں کہ ملک ریاض کی گرفتاری کا حکم دیں

سماعت کے آغاز پر بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کا معاملہ زیر بحث آیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم آج ہی عمل درآمد بینچ بنائیں اور حکم دیں کہ ملک ریاض کو گرفتار کریں۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹ کیس: ملک ریاض پیر کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ طریقہ کار ہے کہ ایک بڑے آدمی کو بچانے کے لیے ساری ٹیم آجاتی ہے، سارے ایسے کہتے ہیں کہ جیسے ملک ریاض معصوم ہوں۔

چیف جسٹس نے جے آئی ٹی رپورٹ پر ریمارکس دیے کہ اس رپورٹ کو مزید تفتیش کی ضرورت ہوئی تو نیب کو بھیج دیں گے، پھر یہ لوگ جانیں اور نیب جانے۔

دوران سماعت ملک ریاض کے وکلا کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ ملک ریاض اس ملک کا ایماندار شخص ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب مانگیں گے، جس پر آپ جواب دے کر اپنی پوزیشن واضح کریں، ہم نے اس جواب پر اپنا حکم دینا ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کے خلاف آبزرویشن دی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے وکلا کے نام شامل ہوئے تو پھر ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'جعلی اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فیصلہ سمجھ لیا گیا ہے'

چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب ہم نے پنڈورا باکس کھول دیا، اب کون سا پنڈورا بکس کھولیں گے۔

ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو ایک حقائق پر مشتمل انکوائری ہوئی ہے، ہم نے اس رپورٹ پر فیصلہ کرنا ہے، یہاں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے۔

ای سی ایل سے متعلق اجلاس 10 جنوری کو ہوگا، عدالت میں جواب

مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں مختلف لوگوں کے نام شامل کرنے سے متعلق معاملے پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ عدالتی حکم پر ای سی ایل کے معاملے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس اجلاس میں تمام ناموں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ای سی ایل سے متعلق جائزہ کمیٹی کا اجلاس 10 جنوری کو ہونا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے اب ای سی ایل والے معاملے پر جو بھی ہوگا وہ وہی کریں گے۔

اومنی گروپ کا معاملہ

جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران اومنی گروپ کے معاملے پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں اور نجی پراپرٹی ٹائیکون سے گٹھ جوڑ دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا مرکب (مکسچر) کیا گیا ہے کہ اس کی لسی بن گئی ہے، کیا اوپر سے فرشتے آکر جعلی بینک اکاؤنٹس کھول گئے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مطمئن ہونا ہے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں اور بحریہ ٹاؤن سے گٹھ جوڑ ہے یا نہیں، جس پر وکیل اومنی گروپ منیر بھٹی نے بتایا کہ عدالت کو دیا گیا تاثر درست نہیں، عدالت اجازت دے تو معاملے کی اصل تصویر پیش کرسکوں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ اومنی گروپ کا سندھ حکومت اور بحریہ سے کوئی گٹھ جوڑ ہے۔

منیر بھٹی نے بتایا کہ اومنی گروپ نے شوگر ملز قانون اور طریقہ کار کے مطابق خریدیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ملز مفت تو نہیں لی ناں، پیسے جعلی اکاؤنٹس سے آئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ جے آئی ٹی کی تفتیش جعلی بینک اکاؤنٹس تک محدود نہیں تھی، ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب ریفرنس دائر ہو تو اپنا دفاع کر لیجیے گا۔

عدالت میں تفصیلی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تفتیشی رپورٹ ہے اس پر فریقین کا جواب دیکھنا ہے، اتنا مواد آنے کے بعد معاملے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، اصل مسئلے سے ہٹ کر ای سی ایل پر توجہ مرکوز نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا نے قسم کھائی ہے کہ اصل مقدمے کو چلنے نہیں دینا اور اعتراض ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔

مزید پڑھیں: ملک ریاض سے کہیں اس ملک سے لیا گیا کچھ واپس بھی کردیں، چیف جسٹس

اس پر منیر بھٹی نے کہا کہ جے آئی ٹی نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی سفارش نہیں کر سکتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی سفارش پر اعتراض ہے تو ہم نیب کو معاملہ بھیج دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چارٹ دیکھا ہے کہ کس طرح کس سال سے اوپر اٹھے ہیں، کیسے سندھ بینک اور سمٹ بینک بنا لیے۔

انہوں نے کہا کہ اب ان بینکوں کو ضم کر رہے ہیں اور اس کا مقصد معاملے پر مٹی ڈالنا ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے منیر بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ سبسڈی کے معاملے پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا گیا، جے آئی ٹی کے دیے گئے اعدادوشمار ریکارڈ پر نہیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے منیر بھٹی آپ لیئرنگ کے بارے میں جانتے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا، اس پر پھر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تو پھر آپ دلائل کیوں دے رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو معاملہ ٹرائل عدالت میں بھجوانے پر اصرار کرنا چاہیے، اگر ہم اس رپورٹ کو قبول کرلیں تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔

جس پر منیر بھٹی نے کہا کہ اس میں فاروق ایچ نائیک پر بھی الزامات ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک ہمارے بھی تو ہیں، آپ ان کی فکر چھوڑیں۔

مذکورہ سماعت میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سست روی پر ازخود نوٹس لیا تھا، اب تو یہ تفتیش ہو گئی ہے اس کو نمٹا دیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم اتنے سادہ ہیں، ہم اس مقدمے کو ختم نہیں کریں گے بلکہ آگے بھی چلائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کی زرداری، اومنی گروپ کے اثاثے منجمد کرنے کی درخواست

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جعلی اکاونٹس کا تعلق بظاہر سیاستدانوں، بحریہ ٹاؤن اور اومنی گروپ سے بنتا ہے، ریکارڈ پر کافی مواد موجود ہے۔

دوران سماعت وکیل شاہد حامد نے عدالت کو مزید بتایا کہ انور مجید اور عبدالغنی مجید اگست سے گرفتار ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ ٹرائل جلد مکمل کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے عبوری چلان جمع کرا چکا ہے، چلان جمع کرانے کے بعد جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مقدمہ ایف آئی اے کا ہے اسے ہی فیصلہ کرنے دیا جائے، عدالت جے آئی ٹی رپورٹ کی توثیق نہ کرے اور جے آئی ٹی میں شامل نہ ہونے والی اومنی گروپ کی کمپنیوں کو چلنے دیا جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اومنی گروپ نے بندر بانٹ سے تمام جائدادیں اور کمپنیاں بنائیں، اربوں روپے کی چینی رہن رکھوائے بغیر ہی اربوں روپے قرض لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید اور عبدالغنی مجید کی طرف سے جواب دیں کہ چینی کہاں ہے؟

سماعت میں ٹریکٹرز پر سبسڈی کے معاملے پر اومنی گروپ کے وکیل نے بتایای کہ تماام حکومتوں نے ٹریکٹر پر سبسڈی دی۔

انہوں نے کہا کہ اومنی گروپ نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اومنی گروپ نے کاغذوں میں ٹریکٹر خریدے، کاغذوں میں ٹریکٹر خرید کر اربوں روپے سبسڈی کے حاصل کیے

بلاول تو معصوم بچہ تھا، اس کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا

عدالت میں دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نے بلاول بھٹو کو معاملے میں کیوں ملوث کیا، بلاول معصوم نے پاکستان میں آکر ایسا کیا کردیا؟ بلاول صرف اپنی ماں کا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو کہا کہ آپ کو ایک بات کا جواب تو ضرور دینا پڑے گا، بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل میں شامل کیوں کیا گیا؟

انہوں نے کہا کہ بلاول تو معصوم بچہ تھا، آپ نے اس کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا، آپ نے بلاول بھٹو کو کس طرح اس کیس میں ملوث کیا، کیا جے آئی ٹی نے کسی کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا، کیا کسی کے کہنے پر بلاول بھٹو کا نام رپورٹ میں ڈالا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تو اپنے وزیر اعلیٰ کی عزت نہیں رکھی اور ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا۔

اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کروں گا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرم بنتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جے آئی ٹی رپورٹ کے پابند نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا

بعد ازاں عدالت نے بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ جب تک بلاول پر کوئی نئی انکوائری نہیں ہوتی ان کا نام نکال دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی ہم نے بنائی، جے آئی ٹی رپورٹ کا وہ حصہ ختم (ڈیلیٹ) کریں جس میں بلاول بھٹو کا نام ہے۔

عدالت نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے بھائی عاصم منصور کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔

سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی رکن سے استفسار کیا کہ بریگیڈیئر صاحب آگے آکر بتائیں کیا ہم نے آپ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

سماعت کے دوران عام انتخابات سے متعلق چیف جسٹس کے اہم ریمارکس سامنے آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جا رہا تھا الیکشن نہیں ہوں گے، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہو گی، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا جمہوریت نہ رہی تو ہم نہیں رہیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت بہت بڑی نعمت ہے، شہریوں کے بنیادی حقوق بھی اسی جمہوریت کے مرہون منت ہیں۔

اس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم بھی جمہوریت کا ہی تحفظ چاہتے ہیں، جمہوریت ارتقائی عمل میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی صورت جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو کے حوالے سے جے آئی ٹی کی آبزرویشن پر تحفظات ہیں، اگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا گیا تو جمہوریت کیسے چلے گی، ہمیں سندھ حکومت سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ غلط اور بے بنیاد ہے، ایس ای سی پی کا جواب

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے اپنا جواب جمع کرایا اور کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ غلط اور بے بنیاد ہے۔

ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا اور بتایا کہ ایٹلس بینک، مائی بینک اور عارف حبیب بینک کا انضمام اسٹیٹ بینک کے منظور شدہ سویپ کے مطابق ہوا۔

جواب میں کہا گیا کہ تینوں بینکوں کے انضمام سے متعلق ایس ای سی پی پر الزام لگا کر کردار کشی کی گئی اور جے آئی ٹی ایس ای سی پی پر بے بنیاد آبزرویشن دی ہیں۔

عدالت میں جمع جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی ایس ای سی پی سے متعلق آبزویشن کو ختم کیا جائے، یہ آبزرویشن حقیقت کے خلاف اور قانونی طور پر غلط ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری، فریال تالپور کی ضمانت میں 23 جنوری تک توسیع

جواب میں مزید کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ دینے سے پہلے ایس ای سی پی سے کوئی رابطہ نہیں کیا، تاکہ ان کے خدشات کا جواب دیا جاسکے۔

ایس ای سی پی نے جواب میں حسین لوائی کی جانب سے تین بینکوں کے انضمام سے متعلق کی گئی تحریریں جواب کا حصہ بنادیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ اکتوبر 2008 میں عارف حبیب نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بینک کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے۔

جواب کے مطابق ٹیک اوور آرڈیننس کے تحت ایس ای سی پی نے عارف حبیب بینک کو خط میں تمام امور کا خیال رکھنے کا کہا، تاہم بینک کی جانب سے قوائد پر عمل نہ کرنے پر انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا۔

عدالت میں بتایا گیا کہ اظہار وجوہ کے جواب میں بینکوں کے شیئر حاصل کرنے والے سرور انویسٹمنٹ کے حسین لوائی نے جواب دیا، جس میں حسین لوائی نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے این او سی جاری کیا ہے۔

سپریم کورٹ کا حکم

بعد ازاں عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس کا معاملہ نیب کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب 2 ماہ میں تحقیقات مکمل کرے۔

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے نکالنے کا حکم دیا جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماء فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل انور منصور کے بھائی عاصم منصور کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نیب چاہے تو ان دونوں شخصیات کو الگ الگ طلب کرسکتی ہے جبکہ مزید تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی اپنا بقیہ کام مکمل کرے اور اگر کوئی ریفرنس بنتا ہے تو بنائے۔

عدالتی فیصلے سے جے آئی ٹی کی ساکھ ختم ہوگئی، ترجمان بلاول بھٹو

عدالتی حکم کے بعد ترجمان بلاول بھٹو سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے جے آئی ٹی کی ساکھ ختم ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ آج جے آئی ٹی کے سیاسی اور جانبدار ہونے پر مہر لگ گئی ہے، عدالت عظمی نے بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ کے نام جے آئی ٹی میں آنے کو بدنیتی قرار دیا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ثابت ہو گیا کہ جے آئی ٹی نے حقائق پر نہیں سیاسی دبائو پر رپورٹ مرتب کی، ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی سیاسی ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکر کا کہنا تھا آج سپریم کورٹ کے حکم سے پیپلز پارٹی کے موقف کی تائید ہوئی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی کابینہ چیئرمن بلاول بھٹو اور وزیراعلی کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر معافی مانگے اور وزیراعلی سندھ کا استعفیٰ مانگنے والے اب خود مستعفی ہوں۔

جعلی اکاؤنٹس کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت اس کیس میں جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 172 افراد کے نام شامل کیے گئے تھے۔

اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر وفاقی حکومت نے ان 172 افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کردیا تھا، تاہم عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ای سی ایل میں نام شامل کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ای سی ایل میں شامل کیے گئے 172 افراد کے ناموں پر نظرثانی کرے۔