لاہور: پیکجز کمپنی کی زمین لیز کے بجائے فروخت ہوگی، چیف جسٹس
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور کے پیکجز کمپنی کو لیز کی مد میں 50 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیکجز کی زمین اب لیز پر نہیں دی جائے گی بلکہ فروخت ہوگی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سرکاری اراضی پر پیکجز کمپنی کی تعمیر کے خلاف مقدمے کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے پیکجز کمپنی کو گزشتہ 3 سالہ لیز کی مد میں 50 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ پیکجز فیکٹری کی زمین اب لیز پر نہیں دی جائے گی اور یہ زمیں فروخت ہو گی۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پیکجز فیکٹری کی زمین نیلامی کے ذریعے فروخت ہو گی اور پہلا حق پیکجز کا ہو گا۔
مقدمے کی سماعت کےدوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے اچنبھے کی بات ہے کہ زمین کی لیز 2015 میں ختم ہو چکی ہے اور یہ لوگ تاحال بیٹھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے رہائشی اور کاروباری مقامات پر تجاوزات گرانے سے روک دیا
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ہے ملک کا قانون، جن لوگوں نے لیز ختم ہونے پرکام کرنا تھا انہوں نے نہیں کیا لیکن یہ تو بیچارے شریف لوگ ہیں جو پیسے دینے کے لیے خود آگئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لاہور صالحہ سعید سے چیف جسٹس نے معاملے کی تفصیلات دریافت کیں جس پر انہوں نے کہا کہ 1955 سے 1985 تک پیکجز فیکٹری کو لیز پر سرکاری زمین دی گئی اور1989 میں مزید 30 سال کی توسیع ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ6 جولائی 2015 کو پیکجز فیکٹری نے مزید 30 سال کی توسیع کے لیے درخواست کی جو بورڈ آف ریونیو میں زیر التوا ہے اور 2017 میں بورڈ آف ریونیو کو اراضی کے حوالے سے تفصیلات فراہم کر دی گئیں۔
چیف جسٹس نے ممبر بورڈ آف ریونیو کو کھل کر بات کرنے پراستفسار کرتے ہوئے کہا کہ کہاں ہیں ڈی جی نیب، اگر ہم منشا کھوکھر کو پکڑ سکتے ہیں تو کوئی بھی نہیں بچ سکتا چاہے وہ کتنا عزت دار ہی کیوں نہ ہو۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری آمد، 6 ازخود نوٹس
ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ بورڈ آف ریونیو میں بہت ساری درخواستیں زیر التوا ہیں لیکن اب پالیسی بنائی گئی ہے کہ آئندہ سرکاری زمین لیز پر نہیں دی جائے گی۔
عدالت کو ممبرکالونیز نے بتایا کہ قانون، ریونیو اور خزانہ کے صوبائی وزرا پر مشتمل کمیٹی نے لیز پر دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس کمیٹی کا مینڈیٹ کیا تھا کیونکہ 2015 سے ایک روپیہ کرایہ ادا نہیں کیا گیا اور اس وقت وزرا کون تھے۔
ممبر کالونیز نے کہا کہ اس وقت رانا ثنا اللہ صوبائی وزیر قانون اور عائشہ غوث پاشا صوبائی وزیر خزانہ تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی کو جلد کابینہ کا اجلاس طلب کر کے فیصلہ کرنے کی درخواست بھی کر رکھی ہے اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر پیکجز فیکٹری کی لیز میں توسیع نہیں ہوئی تو پھر کیوں بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس نے ممبر کالونیز سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ نندی پور کا ریفرنس کیوں گیا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پڑھا ہی ہے جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ نندی پور کا ریفرنس اس لیے بنا ہے کہ کئی سال سے لوگ فائلیں دبا کر بیٹھے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:تجاوزات کے خلاف آپریشن، کیا کھویا کیا پایا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پیکجز فیکٹری کی لیز ختم کر رہے ہیں اور اس پر ازخود نوٹس لے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ڈاکٹر پرویز حسن ایڈووکیٹ سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ گزشتہ 3 برسوں کا کرایہ ادا کیوں نہیں کیا گیا اور اس کا کیا کریں گے۔
ڈاکٹر پرویز حسن نے کہا کہ پیکجز مال نیک نیتی سے عدالت میں پیش ہوا ہے اور عدالت کا جو حکم ہو گا اس پر عمل درآمد کیا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں اس معاملے کو نیب کو بھجوا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو 3 سال سے فائلیں دبا کر بیٹھے رہے اور آپ کو فائدہ پہنچاتے رہے ہیں، پتہ نہیں کون کس کے ساتھ مل رہا ہے، سرکاری افسران خدا کا خوف کرو۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ قوم کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں اور ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو کھایا جا رہا ہے۔
پرویز حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت 3 سال کے کرائے کے طور پر جو مناسب رقم طے کرے گی ہم ادا کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے اس ملک کے لیے کچھ کرنا ہے کہ نہیں، یہاں بچوں کو ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں ملتیں اور ہسپتالوں میں اسٹیپلرز موجود نہیں ہیں، کل ایک بچی کی قوت سماعت کا فری علاج کروایا ہے۔