اروڑ: سندھ کی قدیم تخت گاہ
اروڑ: سندھ کی قدیم تخت گاہ
تاریخ کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ تخت و تاج سدا کے لیے نہیں رہتے۔ عالیشان محلات، ان کی گزرگاہیں، راہداریاں، شہنشاہوں اور ملکاؤں کے عیش و آرام کے تمام تر سامان ایک روز خاک میں مل ہی جاتے ہیں۔ پھر رہ جاتے ہیں ان سے جڑے قصے اور کہانیاں جو ہمیں کتابوں میں پڑھنے اور لوگوں سے سینہ بہ سینہ سننے کو ملتے ہیں۔
سندھ برِصغیر کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس پر متعدد مرتبہ قبضہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ آج بھی سندھ میں کئی ایسے تاریخی قلعے اور آثارِ قدیمہ موجود ہیں جو ہمیں فتح اور شکست کی کہانیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
اروڑ یا الور بھی سندھ کا ایک ایسا تخت گاہ رہا ہے جو آج اپنا تمام تر عروج گنوا بیٹھا ہے۔ اروڑ نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ جاننے کے لیے میں اس نگری کی جانب نکل پڑا جہاں سے کسی وقت میں راجاؤں اور مہاراجاؤں نے حکومت کی تھی۔
سندھ کی یہ قدیم تخت گاہ روہڑی ضلع سکھر سے 5 میل دور جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اروڑ پر چندر ونسی راجاؤں نے 450ء سے 642ء تک حکومت کی، جسے رائے گھرانہ کہا جاتا ہے۔ چندر ونسی گھرانے نے 1100 قبل مسیح میں اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جب سکندر نے اپنی فوجوں کا رخ ہندوستان کی جانب موڑا اس وقت یہاں کا حکمران موسیکانوس تھا جبکہ رائے سہاسی کے زمانے میں نمروز ایرانی نے حملہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اروڑ ایک بہت بڑا بندرگاہ بھی تھا جسے مضبوط حصار بھی حاصل تھا۔ جبکہ چوتھی صدی میں ہاکڑو دریا کا رخ تبدیل کرنے کی وجہ سے بھی یہ شہر بہت متاثر ہوا۔