پارلیمنٹ میں 18ویں آئینی ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث ہوتی ہے کیونکہ وہ آئین کی تشریح کے لیے اہم ہوتی ہے، لیکن پارلیمنٹ میں 18ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی خصوصی بینچ نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سابق چیئرمین سینیٹ اور آٹھارہویں ترمیم کے محرک سینٹر رضا ربانی بھی عدالت میں موجود تھے۔
سندھ حکومت کے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں تین چیزوں کا تعین کیا ہے جن میں سے ایک میرے حق میں ہے، اعلیٰ عدالت نے ہسپتالوں کے انتظامات کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سندھ اور وفاق کو باہمی مشاورت سے نہیں روک رہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’18ویں ترمیم کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے‘
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے شیخ زید ہسپتال کا معاملہ بھی ہے اور عدالت نے قانونی نقطے پر فیصلہ کرنا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ہسپتالوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جناح ہسپتال کو وفاق کے تحت کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عمارت صوبے میں ہونے کا مطلب نہیں کہ صوبوں کو منتقل ہو جائے گی، قانون سازی کے لیے پارلیمان سپریم ادارہ ہے، دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث ہوتی ہے کیونکہ وہ آئین کی تشریح کے لیے اہم ہوتی ہے، پارلیمنٹ میں 18ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، ہمارے ملک میں بغیر بحث کے ترمیم کیسے منظور ہوتی ہیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے صحت کی وزارت ختم ہوگئی تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ یہ فرض کر لیا گیا کہ چونکہ صحت صوبوں کو منتقل ہوگئی ہے اس لیے تمام ادارے بھی منتقل ہو گئے ہیں۔
اس موقع پر رضا ربانی نے کہا کہ یہ درست ہے 18ویں ترمیم پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، تاہم ترمیم کا مسودہ بنانے میں نو ماہ لگے۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی صوبوں کی منتقلی کے لیے عملدرآمد کمیشن بنایا گیا، فہرست کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کی گئی جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد محکموں کی فہرست بنائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق پر صوبوں یا شہر میں ہسپتال بنانے اور سہولیات کی فراہمی پر پابندی نہیں، صوبے اگر لوگوں کو طبی سہولت نہ دے سکیں تو وفاقی حکومت ہسپتال تعمیر کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت ہسپتال بنا کر تباہ و برباد کرنے کے لیے صوبے کے حوالے کر دے۔
مزید پڑھیں: نئی پارلیمنٹ سے 18ویں ترمیم میں تبدیلیاں کروائی جاسکتی ہیں، رضا ربانی
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کا معاملہ دیکھتے ہوئے ہمیں بڑی مشکل ہوئی، یہاں بغیر کسی بحث کے ترمیم کردی جاتی ہے، دنیا بھر میں قانون سازی سے پہلے اس معاملے کو شیئر کیا جاتا ہے۔
وکیل رضا ربانی نے کہا کہ عدالت یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو کہہ دے۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 18ویں ترمیم کر کے پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا، اب ترمیم کی تشریح عدالت کا کام ہے، یہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو نہیں بھیج رہے، قانون کی تشریح وہ ہے جو سپریم کورٹ کہے گی۔
کیس کی مزید سماعت جمعہ کو ہوگی۔