فلم نہ صرف تفریح اور ثقافت کے فروغ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ممالک اور اقوام کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنے اور میل جول بڑھانے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے۔ فلم بینی ہر خاص وعام کی دلچسپی کا محور رہی ہے۔ فلم اپنے ناظرین کے ذہنوں پر نمایاں نقش بھی چھوڑ جاتی ہے، اور اس میں دیے پیغام سے فلم بین کسی نہ کسی صورت ضرور متاثر ہوتا ہے۔
ادب کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ (اوپن فار ڈبیٹ) بحث کے لیے کھلا ہوتا ہے اور فلم اس کا ایک ٹول ہے، سو فلم بھی اپنے اندر بیک وقت کئی معانی رکھتی ہے۔ ہر فلم بین اسے اپنے زاویے سے دیکھتا اور اس کی تشریح کرتا ہے۔
فلم بعٖض مرتبہ دو دھاری تلوار کا کام بھی کرتی ہے، جس کا صحیح استعمال معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا جائے تو ایک اچھے اور برداشت والے معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے لیکن اگر اسی فلم سازی کا استعمال غلط ہاتھوں میں چلا جائے تو عدم برداشت اور منفی سوچ والا معاشرہ جنم لے سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے سائنس بندوق تو بناسکتی ہے لیکن اسے محض حفاظت کے لیے چلانے کا کوئی طریقہ کار وضح نہیں کرتی، اس لیے یہ بندوق چلانے والے پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔