دنیا

بنگلہ دیش کے متنازع ترین انتخابات، حسینہ واجد چوتھی مرتبہ کامیاب

امریکا اور یو این نے انتخابی عمل کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کیا،اپوزیشن کے مطابق ووٹ سے بھرے بیلٹ باکس پہنچائے گئے۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے تشدد اور خوف و ہراس کی فضا میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کرلی جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے دھاندلی زدہ اور مضحکہ خیز قرار دیا۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن ہلال الدین نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ کی 300 میں سے 288 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے حصے میں محض 6 نشستیں ہی آسکیں۔

فرانسیسی خبررساں ’اے ایف پی‘ کے مطابق انتخابات میں کامیابی کے بعد حسینہ واجد ریکارڈ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوچکی ہیں تاہم اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث حزبِ اختلاف نے نتائج تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش انتخابات: اپوزیشن نے نتائج مسترد کردیے، پرتشدد واقعات میں 15 افراد ہلاک

خیال رہے کہ 71 سالہ حسینہ واجد کو گزشتہ ایک دہائی سے جاری اقتدار میں بنگلہ دیش کو معاشی طور پر مضبوط بنانے اور ہمسایہ ملک میانمار میں نسل پرستانہ کریک ڈاؤن کے بعد ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا کو پناہ دینے کے لیے سراہا جاتا ہے۔

حسینہ واجد بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی ہیں، پہلے وہ 1986ء سے 1988ء تک پھر 1991ء سے 1996ء تک اور 2001ء سے 2006ء تک قائد حزب اختلاف رہیں۔

شیخ حسینہ واجد 1996ء سے 2001ء تک، 2009ء سے 2014ء اور 2014 سے 2018 تک وزیر اعظم بنگلہ دیش بھی رہ چکی ہیں اور اب چوتھی بار بھی وزیراعظم منتخب ہوگئی ہیں۔ وہ 1981ء سے بنگلہ دیش عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔

دوسری جانب ناقدین ان پر آمریت اور اپوزیشن کے خلاف سنگین کارروائیاں کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں خاص طور پر ان کی مخالف اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا جو بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا بھگت رہی ہیں۔

دھاندلی کی بازگشت

انتخابات میں دھاندلی کے حوالےسے اپوزیشن کے الزامات کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن امریکا اور اقوامِ متحدہ نے بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر خدشات کا اظہار کیا جبکہ ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کے باعث خوف و ہراس کی فضا پھیلی۔

مزید پڑھیں: انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے 10 ہزار سے زائد کارکنان گرفتار

دوسری جانب مرکزی اپوزیشن اتحاد کے 47 امیدواروں نے پولنگ ختم ہونے سے قبل ہی دھاندلی اور ڈرانے دھمکانے کاالزام عائد کر کے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

انتخابات کے دوران خوف کی فضا کا مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب غیر ملکی خبررساں اداروں نے ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوئے عوام سے گفتگو کی کوشش کی تو حکمراں جماعت کی حمایت کرنے والوں نے بڑھ چڑھ کے جوابات دیے لیکن اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جواب دینے سے گریز کرتے دکھائی دیے۔

اتوار 30 دسمبر کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں تصادم کے دوران کم از کم 18 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے الیکشن والے دن الزام لگایا گیا کہ ان کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور اُن پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ شیخ حسینہ واجد کو ووٹ ڈالیں۔

انتخابات والے دن بنگلہ دیش کے بڑے نجی نیوز چینل جمونا کی نشریات ملک بھر میں بند کردی گئی تھیں جبکہ 7 صحافیوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اقوامِ متحدہ کا بنگلہ دیش میں پرامن انتخابات کرانے کا مطالبہ

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ سے بھرے ہوئے بیلٹ باکس پہنچائے گئے جب یہی بات برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے نے خود ملاحظہ کی اور اس بارے میں پریزائیڈنگ افسر سے پوچھا تو انہوں نے کسی قسم کے تبصرے سے انکار کردیا۔